معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اور یہ ان کے شرف و اعزاز اور بلند رتبہ کی دلیل ہو گی، اور گردن لمبی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان کے اعمال زیادہ ہوں گے، یا حقیقت میں گردنیں لمبی ہوں گی، اور وہ جنت کو دیکھتے ہوں گے، یا وہ لوگوں کے سردار ہوں گے، عرب لوگ سردار کو لمبی گردن والا کہتے ہیں، یا وہ پیاسے نہ ہوں گے، اس وجہ سے کہ گردن اٹھی ہو گی، اور لوگ پیاس کے مارے گردن موڑے ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 8 (387)، (تحفة الأشراف: 11435)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/95، 98) (صحیح)»
It was narrated that 'Esa bin Talhah said:
"I heard Mu'awiyah bin Abu Sufyan say that Messenger of Allah said: "The Mu'adh-dhin will have the longest necks of all people on the Day of Resurrection."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث725
اردو حاشہ: فائده: گردنیں لمبی ہونے سے اس کی سر بلندی اور سرفراززی کی طراف اشارہ ہے اور گردن کا حقیقت میں لمبا ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے اور ظاہری معنی مراد لینا ہی زیادہ قرین صواب ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب دوسرے لوگ پیاس کی وجہ سے پریشان ہوکر سر جھکائے ہوئے ہونگے لیکن مؤذن اس وقت خوش حال اور آسودہ ہوں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 725
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 852
طلحہ بن یحییٰ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس مؤذن آیا اور ان کو نماز کے لیے بلایا تو معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن مؤذنوں کی گردنیں سب لوگوں سے لمبی ہوں گی۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:852]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مؤذن کو اذان کے لیے بہت مستعد اور چوکس ہونا پڑتا ہے اور سب لوگ اذان سن کر ہی نماز کا اہتمام کرتے ہیں، اس لیے قیامت کو اسے یہ شرف اور اعزاز حاصل ہو گا کہ وہ سب سے ممتاز اور منفرد نظر آئے گا، یا کثرت اجرو ثواب کی بنا پر اس کی گردن بلند ہو گی، تاکہ میدان حشر کے پسینہ سے اس کا چہرہ محفوظ رہے۔