انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ جب تک ساری دنیا کے رسم و رواج اور عادات و رسوم، اور اپنی آل اولاد اور ماں باپ سے زیادہ سنت کی محبت نہ ہو اس وقت تک ایمان کامل نہیں، پھر جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی۔
It was narrated that Anas bin Malik said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'None of you truly believes until I am more beloved to him than his child, his father and all the people.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث67
اردو حاشہ: (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کی بنیاد ہے جس قدر محبت پختہ ہو گی، اسی قدر ایمان بھی زیادہ ہو گا۔ محبت میں کمی بیشی ایمان میں کمی بیشی کی دلیل ہے۔
(2) محبت کا معیار زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اطاعت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي﴾(آل عمران: 31) ”کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔“
(3) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دوسروں سے زیادہ ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب اولاد کی محبت، والدین کی محبت یا کسی بزرگ یا دوست کی محبت کسی ایسے کام کا تقاضا کرے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت زیادہ ہو گی تو دوسروں کی ناراضی کی پروا نہیں ہو گی بلکہ انسان دوسروں کو ناراض کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور اسوہ پر عمل کرے گا، اگر دوسروں کی محبت زیادہ ہو گی تو شریعت کی مخالفت کا ارتکاب کر کے انہیں خوش کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ایمان کے مطلوبہ معیار کے خلاف ہے۔ اسی طرح قوم اور قبیلہ کے رسم و رواج کی بھی یہی حیثیت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 67
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 7
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت` «. . . وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اس کے باپ، بیٹے اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 7]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 15]، [صحيح مسلم 168]
فقہ الحدیث ➊ یہاں «لايؤمن» میں نفی کمال مراد ہے، جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے، مثلاً بعض غلط کار اور ظالم آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ «فلان ليس بإنسان» فلاں تو انسان (ہی) نہیں ہے۔ ديكهئے: [مرعاة المصابيح 49/1] تنبیہ: «لا» اگر اسم نکرہ پر ہو اور اسے آخر میں نصب (یعنی زبر) دے تو یہ «لا» نفی جنس ہوتا ہے۔ دیکھئے: [قطرالندي وبل الصدى ص 229]، [والكافية فى النحو ص115]، [المنصوب بلاالتى لنفي الجنس] مثلاً حدیث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»[صحيح بخاري: 756] میں «لا» نفی جنس ہے، «لا» جب نفی جنس ہو تو پوری جنس کی نفی مراد ہوتی ہے الا یہ کہ صحیح دلیل سے تخصیص و استثناء ثابت ہو جائے۔ ➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا رکن ایمان ہے، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کی جائے، تب ہی ایمان مکمل ہو سکتا ہے، جیسا کہ «الأن يا عمر!»[صحيح البخاري: 6632] وغیرہ دلائل سے ثابت ہے۔ ➌ والد، والدہ اور اولاد سے انسان کی محبت عام طور پر سب سے زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے تمام رشتہ داروں، دوستوں اور پیاروں سے زیادہ محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنی چاہئے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے۔ ➍ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت دس سال کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی عمر بیس سال تھی، آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 2286 حدیثیں بیان کی ہیں، جن میں 168 بخاری و مسلم میں ہیں۔ ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے دعا فرمائی: «اللهم أكثر ماله وولده وبارك له فيه» ”اے اللہ! اس کا مال اور اولاد زیادہ کر اور ان میں اسے برکت دے۔“[صحيح مسلم: 2481، صحيح البخاري: 6378، 6379] یہ دعا من و عن پوری ہوئی۔ آپ کے پوتے پوتیاں سو کے قریب تھے۔ «رضي الله عنه»
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 15
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے` «. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 15]
� فہم الحدیث: یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے اور جب تک کائنات کی ہر چیز حتی کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر آپ سے محبت نہ کی جائے ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ مجھے میری جان کے سوا سب سے پیارے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں عمر! جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی پیارا نہ ہو جاؤں۔ تب عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب آپ مجھے میری جان سے بھی پیارے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب بات بنی۔“[صحيح بخاري 6632] شیخ ابن عثیمین رحمه الله نے تمام علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا جز ہے اور جس کے دل میں جتنی محبت کم ہو گی اس کا اتنا ہی ایمان بھی کم ہو گا۔ [القول المفيد شرح كتاب التوحيد]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 27
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 15
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنے نفس سے زیادہ` «. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 15]
� تشریح: اس روایت میں دو سندیں ہیں۔ پہلی سند میں حضرت امام کے استاد یعقوب بن ابراہیم ہیں اور دوسری سند میں آدم بن ابی ایاس ہیں۔ تحویل کی صورت اس لیے اختیار نہیں کی کہ ہر دو سندیں حضرت انس رضی اللہ عنہ پر جا کر مل جاتی ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان روایات میں جس محبت کا مطالبہ ہے وہ محبت طبعی مراد ہے کیونکہ حدیث میں والد اور ولد سے مقابلہ ہے اور ان سے انسان کو محبت طبعی ہی ہوتی ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت طبعی اس درجہ میں مطلوب ہے کہ وہاں تک کسی کی بھی محبت کی رسائی نہ ہو۔ حتیٰ کہ اپنے نفس تک کی بھی محبت نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 15
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 169
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد اس کے ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:169]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : محبت کا لغوی معنی: کسی شے کی طرف میلان قلب یا کسی لذیذ چیز کی طرف متوجہ ہونا یا جھک جانا ہے۔ فوائد ومسائل: محبت کی دو قسمیں ہیں: (1) محبت طبعی: جو غیر اختیاری ہے جیسے اہل، اولاد، والدین، عزیز واقارب اور مال ومنال کی محبت۔ (2) محبت عقلی: یہ محبت اختیاری ہے، عقل کا تقاضا اور مطالبہ ہے کہ اس چیز یا ذات سے محبت کا رشتہ استوار کیا جائے، اس کے اسباب وجوہ مختلف ہیں: (1) احسان وتفضَّل: کسی شخص کا کسی کا محسن ہونا اور ہمدردی وخیرخواہی کرنا، محبت کا باعث ہوتا ہے، کہتے ہیں: "الْإِنْسَانُ عَبْدُالإِحْسَانِ"، ”انسان محسن کا غلام وبندہ ہے۔ “ اس کو حب احسانی کا نام دیا جاتا ہے۔ (2) حسن وجمال: کسی چیز یا شخص کا حسن وجمال اور خوبصورتی بھی کشش ومیلان اور گرویدگی کا باعث ہے، یہ حسن ذات ہو یا حسن صوت وآواز یا حسن صورت وسیرت، اس کو ”حب جمالی“ کہہ سکتے ہیں۔ (3) کمال وخوبی: کسی کا کسی فن وہنر میں کامل ہونا بھی محبت اور میلان قلبی کا سبب بنتا ہے، اور کسی کے کمالات سن کر ہی انسان اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اس کا نام ”حب کمالی“ رکھا جا سکتا ہے۔ (4) کسی چیز کا نافع اور فائدہ بخش ہونا: جس دوا ء، فن وپیشہ سے انسان کو مطلوب ومقصود فائدہ اور نفع حاصل ہوتاہے، اس سے بھی انسان محبت کرتا ہے، بعض ائمہ نے اس کو ”حب عقلی“ کا نام دیا ہے۔ حضورا کرم ﷺ کےاندر محبت کا باعث یہ تمام اسباب موجود تھے، یہ اسباب اگرچہ طبعی نہیں ہیں جو ایک اضطراری اور غیراختیاری محبت کا باعث ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان ان اسباب کو بالکیہ غیر طبعی بھی قرار نہیں دے سکتا، انسان طبعی اور فطرتی طور پر بھی ان کی طرف کچھ نہ کچھ راغب ہوتا ہے، لیکن رسول کی محبت ان تمام امور سے بالا اوربلند ہے اس لیے رسول سے محبت بھی اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ رسول (ﷺ) سے محبت کا سبب ایمان ہے، اور ایمان ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے، اس کی خاطر انسان سب کچھ لٹا سکتا ہے، لیکن اس کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا، اس لیے رسول ﷺ سے محبت ایمان کے سبب ہے اور اس کو ”حب ایمانی“ کا نام دینا چاہیے، اور اس سے آپ ﷺ سے محبت کا معنی ومفہوم بھی واضح ہوگیا کہ آپ کی خاطر ہر چیز کو چھوڑا جا سکتا ہے، ہر محبوب سے محبوب اور ہر عزیز سے عزیز چیز آپ کی خاطر قربان کی جاسکتی ہے، لیکن کسی محبوب سے محبوب اور عزیز سے عزیز چیز کے حصول کی خاطر آپ کو آپ کےلائے ہوئے دین کو، اور آپ کی تعلیمات وہدایات اور آپ کے احکام وفرامین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہی چیز ایمان کی کسوٹی اور میزان وترازو ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود، آپ پر ایمان، اللہ تعالیٰ کا رسول ہونے کی حیثیت سے ہے، اسی لیے آپ محبوب ہیں۔ لہذا آپ ﷺ کی شان ومقام کو اللہ تعالیٰ سے بڑھانا، غلو ہے جو ایک ناپسندیدہ حرکت ہے۔ ایک بریلوی عالم غلام رسول سعیدی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے: ”یوں نہ کہا جائے کہ خدا کا ذکر مٹ جائے گا اور مصطفیٰ کا ذکر جاری رہے گا، یا خدا کی دی ہوئی آنکھ میں اتنی روشنی نہ تھی جتنی مصطفیٰ کی دی ہوئی آنکھ میں روشنی تھی، اسی طرح یہ شعر بھی غلط ہے: خدا جس کو پکڑے چھڑائے محمد محمد کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا یہ شعر بھی غلب ہے: بجاتے تھے جو دنیا میں انی عبدہ کی بین بینسری ہر دم وہ محشر میں انی انا اللہ کہہ کے نکلیں گے بعض واعظین کلمہ میں اللہ کے ذکر کے مقدم ہونے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے لا الہٰ الا اللہ کہنے سے زبان پاک ہوجائے، پھر محمد رسول اللہ پڑھا جائے۔ بعض واعظین جوشِ خطابت میں یا نعرہ لگوانے اور داد حاصل کرنے کے شوق میں اس قسم کی باتیں کہہ جاتے ہیں، ان سب سے احتراز لازم ہے، رسول اللہ ﷺ اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں، خدا ہیں نہ خدا سے بڑھ کر ہیں، نہ اس میں آپ کی کوئی فضیلت ہے، نہ آپ ﷺ ایسی تعریف سے خوش ہوتے ہیں، آپ اللہ کی مخلوق میں سب سے اعلی اورافضل ہیں۔ “(شرح مسلم اردو: 1/442)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:15
15. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:15]
حدیث حاشیہ: 1۔ محبت کی تین اقسام ہیں: (الف) ۔ محبت تعظیم، جیسے والد اور استاد سے محبت کی جاتی ہے۔ (ب) ۔ محبت شفقت، جیسے اولاد اورشاگردوں سے کی جاتی ہے۔ (ج) ۔ محبت استحسان، جو عام انسانوں سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تمام اصناف محبت کوجمع کردیا ہے کہ اس وقت تک ایمان کی تکمیل نہیں ہوگی جب تک ان تمام اقسام سے زیادہ مجھ سے محبت نہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو انسان (اس حدیث میں مذکور محبت کی طرح) محبت کرے گا، وہ آپ کے ساتھ جنت میں جائے گا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6171) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے محسن اعظم ہیں، اس لیے آپ تمام مذکورہ اقسام سے محبت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ آپ نے ہمیں دنیا میں عزت وشرف اورآخرت میں راحت ونجات کاراستہ بتایا ہے۔ (شرح الکرماني: 99/1) ۔ 2۔ محبت کے چار اسباب ہیں۔ (الف) ۔ جمال، یعنی انسان خوبصورت ہو اور اس کے اعضاء میں تناسب اور اعتدال ہو۔ (ب) ۔ کمال، اسے باطنی خوبصورتی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان میں اعلیٰ درجے کے اخلاق جمع ہوں۔ بڑے بڑے سرکش بھی اس کی خوش اخلاقی کے سامنے سپرانداز ہوجاتے ہوں۔ (ج) ۔ قرابت، اس سے مراد جسمانی اور روحانی تعلق داری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے روحانی باپ ہیں۔ (د) احسان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے محسن اعظم ہیں۔ اس عالم رنگ وبو میں جس قدر بھی محبت کی وجوہات ہوسکتی ہیں وہ سب آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس لیے آپ کے ساتھ محبت کا وہ تعلق ہونا چاہیے جو کسی اور انسان یا مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ 3۔ ایک حدیث میں مومن کو نکیل دار سدھائے ہوئے اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اسے جب کھینچا جائے، چل پڑتا ہے اور جہاں بٹھایا جائے، بیٹھ جاتا ہے۔ (مسند احمد: 126/4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے متعلق مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ جہاں اللہ کا رسول اسے کھینچے، چل پڑے اور جہاں بٹھائے وہاں بیٹھ جائے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فرستادہ ہیں، اس لیے آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾”جس نے رسولؐ کی اطاعت کی،اس نے یقیناً اللہ کی اطاعت کی۔ “(فتح الباري: 1/ 84)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 15