ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، آپ نے ہمیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھائی، جسے آپ اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کا داہنا کنارا بائیں کندھے پر اور بایاں داہنے کندھے پر تھا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ ہمیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھا لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، میں میں اس کو پہن کر نماز پڑھ لیتا ہوں، اگرچہ اسے پہن کر مباشرت بھی کی ہو“۔
وضاحت: ۱؎: ان روایتوں سے ثابت ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی کپڑا خاص نماز کے لئے نہیں رہتا تھا، بلکہ روز مرہ کے کپڑوں سے ہی نماز بھی ادا کر لیتے تھے، اس لئے بعض لوگوں نے جو سجادے، جوڑے اور کپڑے نماز کے لئے خاص کر لئے ہیں، یہ بدعات و محدثات میں داخل ہیں، پھر اگر کوئی ان کو چھو لے تو ہندؤوں کی طرح چھوت سمجھتے ہیں، اور بھوت کی طرح الگ رہتے ہیں، ان کو وسواس خناس نے مبہوت کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10945، ومصباح الزجاجة: 222) (حسن)» (اس حدیث کی سند میں حسن بن یحییٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ میں ہے، صحیح ابی داود: /390)
It was narrated that Abu Darda' said:
"The Messenger of Allah came out to us with water dripping from his head, and he led us in prayer wearing a single garment, placing its one end on the right shoulder, and the other end on the other shoulder. When he finished praying, 'Umar bin Khattab said to him: 'O Messenger of Allah, did you lead us in prayer wearing a single garment? He said: 'Yes, I perform prayer in it, and in it I (i.e. I had sexual intercourse in it)."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد فيه الحسن بن يحيي (الخشني) اتفق الجمھور علي ضعفه“ يعني ضعفه الجمھور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث541
اردو حاشہ: (1) اگر کپڑا بڑا ہو اوراس سے جسم کے اکثر حصے چھپ جائیں تو نماز کے لیے کافی ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ نماز پڑھتے وقت دو یا تین کپڑے پہنے ہوئے ہوں۔
(2) امام ہو یا مقتدی سر ڈھانپ کر نماز ادا کرنا ضروری نہیں۔ گو مستقل طور پر ننگے سر رہنا مستحسن طریقہ نہیں۔
(3) یہ حکم مرد کے لیے ہے عورت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سر پر اوڑھنی بھی ہو یعنی اگر عورت لمبی قمیص پہن لے جس سے اس کے پاؤں چھپ جائیں اور سر پر کپڑا لےلے تو صرف دو کپڑوں میں اس کی نماز درست ہوجائے گی۔
(4) ہمارے فاضل محقق نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ یہ روایت معناً اور متناً صحیح ہے جیسا کہ گزشتہ روایت میں ہے۔ غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی ؒ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 541