براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جنازے میں تھے، آپ قبر کے کنارے بیٹھ گئے، اور رونے لگے یہاں تک کہ مٹی گیلی ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بھائیو! اس جیسی کے لیے تیاری کر لو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: تم اس طرح ایک دن تنگ و تاریک قبر میں ڈالے جاؤ گے، نہ کوئی یار ہو گا، نہ مددگار، نئی راہ اور راہ بتانے والا کوئی نہیں، نہ رفیق صرف اپنے نیک اعمال رفیق ہوں گے، باقی سب چھٹ جائیں گے، مال متاع آل و اولاد، وغیرہ سب یہیں رہ جائیں گے، اور مرنے کے بعد تم کو مٹی میں دبا کے لوٹ کر عیش کریں گے، جب یہ حال ہے تو تم ان کی محبت میں اللہ تعالی کو مت بھولو، نیک اعمال کو ہرگز نہ چھوڑو، اس کو اپنا محبوب اور رفیق سمجھو، جو رشتہ داروں، دوستوں اور بیوی بچوں سے ہزار درجہ بہتر ہے، وہ تمہارا ساتھ کبھی نہ چھوڑے گا، جب نبی اکرم ﷺ دیکھ کر اتنا روئے کہ زمین تر ہو گئی حالانکہ آپ کو اپنی نجات کا یقین تھا، تو ہم اگر آنسوؤں کی ندی بہا دیں بلکہ ساری عمر رویا کریں تو زیبا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہاں ہمارا کیا حال ہو گا۔ «اللهم اغفر لنا وارحمنا»، آمين۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1912، ومصباح الزجاجة: 1492)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/294) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 527)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف محمد بن مالك الجوزجاني: اختلف قول ابن حبان فيه وضعفه الجمهور۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4195
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) قبر آخرت کا پہلا مرحلہ ہے اس کے لیے تیاری موت سے پہلے ہی ہوسکتی ہے لہٰذا زندگی کے جو چند دن میسر ہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
(2) موت اور قبر کے مراحل یاد کرکے رونا اللہ کے خوف سے رونے میں شامل ہے کیونکہ وہاں اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو سزا ملے گی۔
(3) مناسب موقع پر وعظ و نصیحت کے چند جملے کہنے میں حرج نہیں لیکن اس طرح کا رواج نہ بنا لیا جائے کہ لازمی جزء سمجھ لیا جائے۔ جس طرح بعض حضرات جنازہ پڑھانے سے پہلے وعظ و نصیحت کرنا عملاً ضروری سمجھ بیٹھے ہیں اگرچہ وہ اسے زبان سے ضروری نہ کہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4195