زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم»”پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا“(سورة اتكاثر: 8) نازل ہوئی، تو انہوں نے کہا: کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ یہاں تو صرف دو کالی چیزیں: پانی اور کھجور ہی میسر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب نعمتیں حاصل ہوں گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 88 (3356)، (تحفة الأشراف: 3625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/163) (حسن)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4158
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) جو نعمتیں ہماری نظر میں معمولی ہیں غور کیا جائے تو وہ بھی بڑی نعمتیں ہیں لہٰذا ان کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔
(2) معمولی سے معمولی غذا بھی بھوکا رہنے کے مقابلے میں بہت بڑی نعمت ہے۔
(3) آگاہ رہو! یہ ضرور ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ اگر آج تمھارے پاس نعمتوں کی فراوانی نہیں ہے تو عن قریب یہ ہوجائے گی یعنی فتوحات ہوں گی اور تمھیں وافر مقدار میں غنیمتیں حاصل ہوں گی لہذا تمھیں بہت سی نعمتیں میسر ہونگی۔ دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ ہر ایک انسان کو دنیا میں تھوڑا بہت مال ومتاع ملا ہی ہے یعنی کسی کو کم کسی کو زیادہ لہٰذا قیامت کے دن ہر شخص سے اس کو دی جانے والی ہر نعمت کے بارے میں سوال ہوگا ہماری رائے میں دوسرا مفہوم راجح ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4158
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3356
´سورۃ اتکاثر سے بعض آیات کی تفسیر۔` زبیر بن عوام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم»”اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہو گا“(التکاثر: ۸)، نازل ہوئی تو زبیر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ ہمیں تو صرف دو ہی (کالی) نعمتیں حاصل ہیں، ایک کھجور اور دوسرے پانی ۱؎ آپ نے فرمایا: ”عنقریب وہ بھی ہو جائیں گی“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3356]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہو گا (التکاثر: 8)
2؎: یعنی ان دونوں نعمتوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا، اور دوسرے اور بہت سی نعمتیں بھی حاصل ہو جائیں گی۔
3؎: مدینہ کی کھجوریں عموماً کالی ہوتی تھیں، اورپانی کو اغلباً کالا کہہ دیا جاتا تھا اس لیے ان دونوں کو عرب (الأَسوَدَانِ)(دو کالے کھانے) کہا کرتے تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3356