مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا حدیث پر عمل اور بدعت سے اجتناب کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ارشادات نبویہ پر حرف بحرف عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس میں کوتاہی کرتے نہ اس میں اپنی طرف سے اضافہ کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے قدم رکھنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ قرآن مجید نے اس کام سے منع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ﴾(الحجرات: 1) ”اے ایمان والو! اللہ سے اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔“
(2) اس حدیث کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ارشاد مبارک سنتے تھے، اسے بعینہ اسی طرح روایت فرماتے، الفاظ میں کمی بیشی نہ کرتے۔ حدیث کو بالمعنی روایت کرنا اگرچہ جائز ہے، تاہم محدثین روایت باللفظ کو افضل قرار دیتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4