سنن ابن ماجه
كتاب السنة
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
1. بَابُ : اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: اتباع سنت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، قَالَ:" كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ يَعْدُهُ وَلَمْ يُقَصِّرْ دُونَهُ".
ابو جعفر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتے تو نہ اس میں کچھ بڑھاتے، اور نہ ہی کچھ گھٹاتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7442، ومصباح الزجاجة: 2)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/82)، سنن الدارمی/المقدمة 31 (327) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ حدیث کی روایت میں حد درجہ محتاط تھے، الفاظ کی پوری پابندی کرتے تھے، اور ہوبہو اسی طرح روایت کرتے جس طرح سنتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا حدیث پر عمل اور بدعت سے اجتناب کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ارشادات نبویہ پر حرف بحرف عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
اس میں کوتاہی کرتے نہ اس میں اپنی طرف سے اضافہ کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے قدم رکھنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ قرآن مجید نے اس کام سے منع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ﴾ (الحجرات: 1)
”اے ایمان والو! اللہ سے اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔“
(2)
اس حدیث کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ارشاد مبارک سنتے تھے، اسے بعینہ اسی طرح روایت فرماتے، الفاظ میں کمی بیشی نہ کرتے۔
حدیث کو بالمعنی روایت کرنا اگرچہ جائز ہے، تاہم محدثین روایت باللفظ کو افضل قرار دیتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4