(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا الوليد بن مسلم , حدثني عبد الرحمن بن يزيد بن جابر , حدثني بسر بن عبيد الله , حدثني ابو إدريس الخولاني , انه سمع حذيفة بن اليمان , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يكون دعاة على ابواب جهنم , من اجابهم إليها قذفوه فيها" , قلت: يا رسول الله , صفهم لنا , قال:" هم قوم من جلدتنا , يتكلمون بالسنتنا" , قلت: فما تامرني إن ادركني ذلك؟ قال:" فالزم جماعة المسلمين وإمامهم , فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام , فاعتزل تلك الفرق كلها , ولو ان تعض باصل شجرة حتى يدركك الموت , وانت كذلك". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ , أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَكُونُ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ , مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , صِفْهُمْ لَنَا , قَالَ:" هُمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا , يَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا" , قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ:" فَالْزَمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ , فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ , فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا , وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ , وَأَنْتَ كَذَلِكَ".
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے“، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے“ ا؎۔
وضاحت: ۱؎: تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے یعنی جنگل میں جا کر عزلت اور گوشہ نشینی اختیار کرنا اور مرنے تک ایک درخت کی جڑ چوسنے پر قناعت کرنا، اور ان سب فرقوں سے الگ رہنا ایسے فتنہ کے زمانے میں جب نہ تو کوئی مسلمانوں کا امام ہو نہ جماعت ہو بہتر اور باعث نجات ہے۔
هل بعد هذا الخير من شر قال نعم هل بعد ذلك الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر فهل بعد ذلك الخير من شر قال نعم دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها صفهم لنا قال هم من جلدتنا ويتكلمون بألسنتنا قلت فما
هل من وراء هذا الخير شر قال نعم هل وراء ذلك الشر خير قال نعم هل وراء ذلك الخير شر قال نعم كيف قال يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي ولا يستنون بسنتي وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك قال تسمع وتطيع للأمير و
أيكون بعده شر كما كان قبله قال نعم السيف إن كان لله خليفة في الأرض فضرب ظهرك وأخذ مالك فأطعه وإلا فمت وأنت عاض بجذل شجرة يخرج الدجال معه نهر ونار فمن وقع في ناره وجب أجره وحط وزره ومن وقع في نهره وجب وزره وحط أجره قيام الساعة
دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها صفهم لنا قال هم قوم من جلدتنا يتكلمون بألسنتنا قلت فما تأمرني إن أدركني ذلك قال فالزم جماعة المسلمين وإمامهم فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام فاعتزل تلك الفرق كلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتى يدركك الموت وأنت كذ
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3979
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نبیﷺ کے بعد ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو باطل کی طرف دعوت دینے والے تھے اور عام لوگ ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر ان کی بات مان لیتے تھے۔
(2) خارجی معتزلہ شیعہ اور جہیمیہ وغیرہ فرقے صحابہ وتابعین کے دور میں پیدا ہوئے۔ صحابہ و تابعین نے ان کی تردید کی اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا۔
(3) اختلافات کے اس دور میں صحیح راستہ وہی تھا جس پر صحابہ کرام اور تابعین قائم تھے۔ بعد میں پيدا ہونے والے اختلافات میں بھی صحابہ وتابعین کا طرز عمل ہی قابل اتباع ہے۔
(4) جماعت المسلمین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ان فرقوں سے الگ ہیں مثلاً: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک فرقہ ان کی محبت میں غلو کا شکار ہوا جیسے: کیسانیہ اور دوسرے شیعہ فرقے۔ ایک فرقہ ان کی مخالفت میں حد سے بڑھ گیا مثلاً: خارجی اور ناصبی۔ عام مسلمانوں ان دونوں سے الگ رہے انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلیفہ راشد تسلیم کیا لیکن انھیں معصوم نہیں مانا ان کے لیے الله کے نور میں سے نور ہونے کا عقیدہ نہیں رکھا۔ یہی عام مسلمانوں جماعت المسلمین (مسلمانوں کی جماعت) ہیں۔ علاوہ ازیں خروج و بغاوت کے زمانے میں خلیفہ وقت کے ساتھ رہنا بھی اسی کے مفہوم میں شامل ہے۔
(5) مسلمانوں کے امام سے مراد وہ حکمران اور خلیفہ ہے جو اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے معاملات کا انتظام کرتا اور دوسرے فرائض انجام دیتا ہے مثلاً: اسلامی سلطنت کی سر زمین کی حفاظت دشمن ملکوں کے خلاف جہاد زکاۃ وغیرہ کی وصولی اور تقسیم بیت المال کا دوسرا انتظام مجرموں کی گرفتاری اور سزا، مسلمانوں کے جھگڑوں میں فیصلے کرنا اور اس مقصد کے لیے قاضی او جج مقرر کرنا وغیرہ۔
(6) بعض لوگوں نے ” مسلمانوں کی جماعت “ کا مصداق ایک خودساختہ جماعت کو قراردینے کی کوشش کی ہےحالانکہ جماعۃ المسلمین کا لفظ اسم علم کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ ورنہ نہ اِمَامَهم (ان کے امام) کے بجائےاِمَامَها (اس جماعت کا امام) فرمایا جاتا۔ جو امام مسلمانوں کا دفاع نہیں کرسکتا اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے ساتھ پیوستگی کا حکم ناقابل فہم ہے۔
(7) فتنوں کے زمانے میں کسی پارٹی کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں البتہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرنا اسلامی سلطنت کے دفاع اور قوت کے لیے ضروری ہے۔
(8) دور حاضر میں مختلف مذہبی تنظیمیں صرف تعاون علي البر کی بنیاد پر قائم ہیں۔ ان کے ساتھ وابستگی یا عدم وابستگی کا تعلق اسلام کے بنیادی احکام سے نہیں۔ ان میں سی کسی ایک جماعت یا بیک وقت متعدد جماعتوں سے تعاون درست ہے جب تک وہ کوئی غلط کام نہ کریں۔ جو کام غلط ہو اس میں تعاون جائز نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3979
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4244
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔` سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4244]
فوائد ومسائل: 1) اللہ عزوجل کی عجیب حکمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں مختلف میلانات پیدا فرما دیتا ہے جس میں ان کے لیئے خیر اور برکت ہوتی ہے۔ عام صحابہ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شر کے متعلق دریافت کرتے تھے اس سے ان کے علاوہ اُمت کو بھی بہت فائدہ ہو ا۔
2) رسول اللہﷺ حالات کے مطابق ہر ایک کواسکے مناسبِ حال جواب ارشاد فرماتے تھے۔
3) جس شخص کو جس چیز کی رغبت ہو تی ہے وہ اس میں دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے۔ چناچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول ا للہ ﷺ کے رازدان اور آیندہ کے بہت سے امور سے آگاہ تھے۔
4) فتنے میں تحفظ کے لیئے تلوار کا استعمال اسی صورت میں ہوگا جب خلیفۃ المسلمین یا مومن مخلص قائد جہاد کرے گا۔ اس صورت میں اہلِ ایمان پر لازم ہو گا کہ اسکا ساتھ دیں۔
5) اگر زمین میں مسلمان خلیفہ نہ ہو تو اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیئے جنگل میں اکیلے پڑے رہنا اور فتنہ پردازوں سے الگ رہنا واجب ہو گا خواہ کسی قدر مشقت آئے۔
6) دجال کی ظاہری آسائشیں درحقیقت ہلاکت ہون گی اور ظاہری ہلاکت آفرینیاں اہلِ ایمان کے لیئے باعثِ نجات ہونگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4244
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4784
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے بارے میں اس خوف سے سوال کرتا تھا کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، تو میں نے آپ سے پوچھا، یا رسول اللہﷺ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ ہمارے پاس (اسلام کی صورت میں) یہ خیر لے آیا، تو کیا اس خیر کے بعد شر (بے دینی) ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ تو میں نے پوچھا، کیا اس شر (بے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4784]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ: کیا اسلام کی صورت میں جو خیر اور امن وسلامتی ہوئی ہے، اس کے بعد شر فتنہ وفساد ہو گا، اس سے مراد وہ فتنہ وفساد ہے، جو حضرت عثمان کی شہادت کے بعد رونما ہوا اور مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور شر کے بعد خیر، حضرت علی اور معاویہ اور حسن ومعاویہ کی صلح اور حضرت معاویہ پر اتفاق ہے اور اس میں دخن کدورت یہ تھی کہ پہلے جیسا باہمی اتحاد واتفاق اور پیارومحبت نہ رہا تھا، جیسا کہ حدیث میں ہے”لاترجع قلوب قوم علي ماكانت عليه“لوگوں کے دل پہلی حالت کی طرف نہیں آئیں گے اور بعض بدعتی فرقوں شیعہ اور خوارج کا ظہور ہوگیا تھا اور بعض امراء ایسے تھے، جن میں بعض قابل اعتراض اور منکر باتیں پیدا ہوگئی تھیں، اس آمیزش والی خیر کے بعد، بدعتی فرقوں کی بدعتوں کو فروغ ملا اور بعض سلاطین وخلفاء نے ان کی سرپرستی کی، تویہ لوگ جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہوکر لوگوں کو ان بدعتوں کی دعوت دیتے تھے، اور ان کا پرچار کرتے تھے، لیکن وہ تھے، من جلدتنا: وہ اسلام کے نام لیوا اور مسلمانوں میں سے تھے اور مسلمانوں والی بولی بولتے تھے، اپنے آپ کو اسلام کے داعی قرار دیتے تھے۔ (2) تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ: جس امیر اور امام کی امارت وامامت پر مسلمانوں کی اکثریت جمع ہوگئی ہے، اس کی امارت اور امامت کو مان کر مسلمانوں کی جمعیت سے وابستہ رہنا، اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرنا یا تحریک نہ چلانا اور اگر مسلمان کسی کی امامت یا امارت پر جمع نہ ہوں، ہر ایک اپنا اپنا الگ راگ الاپے اور الگ الگ ڈفلی بجائے اور طوائف الملوکی ہو، تو پھر کسی گروہ کا ساتھ نہ دینا، سب سے الگ تھلگ ہوجانا۔ (3) وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ يَقُولُ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ قَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ قَالَ نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ فَقُلْتُ هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا قَالَ نَعَمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ فَقُلْتُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ اگر امام بیضادی کے بقول، زمین میں کوئی ایسا خلیفہ نہ رہے، جس پر لوگ جمع ہوں تو پھر الگ تھلگ رہنا اور اس کی خاطر جنگل میں رہنا پڑے، تو اس سے بھی گریز نہ کرنا، بلکہ ہر قسم کے مصائب ومشکلات برداشت کرنا، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جماعت المسلمین کے نام سے جو ڈرامہ رچایا گیا ہے، اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث میں وہ امام مراد ہے، جس کو اختیار واقتدار حاصل ہو، اس لیے حافظ ابن حجر نے معنی کیا، ہے، هوكناية عن لزوم جماعة المسلمين وطاعة سلاطينهم ولو عصوا، اس حدیث سے مراد مسلمانوں کی جمعیت سے وابستہ رہنا اور ان کے سلاطین کی اطاعت کرنا ہے، اگرچہ وہ معصیت کے بھی مرتکب ہوں اور امام بیضادی نے وامام کا معنی کیا ہے، اذالم يكن في الارض خليفه، اگر زمین میں کوئی خلیفہ نہ ہو، تکملہ ج3ص343، صحیح مسلم، ج 2، مع نووی، ص 127۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4784
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4785
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، یا رسول اللہﷺ! ہم شر میں مبتلا تھے، تو اللہ خیر لے آیا اور ہم اس سے وابستہ ہیں، تو کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا، کیا اس شر کے بعد بھی خیر کا دور ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے دریافت کیا، کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا، کیا کیفیت ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے امام ہوں گے، جو میری ہدایت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4785]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: جُثْمَانِ: جثة، بدن وجسم۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4785
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7084
7084. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں اس ڈر سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا کہیں میری زندگی ہی میں شر پیدا نہ ہوجائے، چنانچہ میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے، پھر اللہ تعالٰی نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اس میں کچھ ”دخن“ ہوگا میں نے پوچھا: ”اس کا دخن کیا ہوگا۔“ آپ نے فرمایا: ”کچھ لوگ ہوں گے جو میرے بتائے ہوئے طریقے کے برعکس چلیں گے۔ ان کی کچھ باتیں اچھی ہوں گی اور بعض باتوں میں تم برائی دیکھو گے۔“ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا دور آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جہنم کے دروازوں پر اس کی دعوت دینے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7084]
حدیث حاشیہ: (1) محدثین نے کہا کہ پہلی برائی سے وہ فتنے مراد ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ہوئے اور دوسری بھلائی سے جو عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ تھا‘ وہ مراد ہے اور ان کے بعد کا اس زمانہ میں کوئی خلیفہ عادل ہوتا متبع سنت‘ کوئی ظالم ہوتا بد عتی جیسے خلفاء عباسیہ میں مامون رشید بڑا ظالم گزرا پھر متوکل علی اللہ اچھا تھا۔ اس نے امام احمد کو قید سے خلاصی دی اور معتزلہ کی خوب سر کوبی کی۔ بعضوں نے کہا پہلی برائی سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل‘ دوسری بھلائی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ مراد ہے اور دھوئیں سے خارجیوں اور رافضیوں کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری برائی سے بنی امیہ کا زمانہ مراد ہے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بر سر منبر برا کہا جاتا ہے‘ میں (وحید الزماں) کہتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس حدیث سے واللہ اعلم یہ ہے کہ ایک زمانہ تک جو نقشہ میرے زمانہ میں ہے یہی چلتا رہے گا اور بھلائی قائم رہے گی یعنی کتاب وسنت کی پیروی کرتے رہیں گے جیسے سنہ400ھ تک رہا اس کے بعد برائی پیدا ہوگی یعنی لوگ تقلید شخصی میں گرفتار ہو کر کتاب وسنت سے بالکل منہ موڑ لیں گے بلکہ قرآن وحدیث کی تحصیل بھی چھوڑ دیں گے۔ قرآن وحدیث کے بدل دوسری کتابیں پڑھنے لگیں گے۔ دین کے مسائل بعوض قرآن وحدیث کے ان کتابوں سے نکالے جائیں گے۔ (2) یعنی ان کی جماعت میں جا کر شریک ہونا ان کی تعداد بڑھانا منع ہے۔ ابویعلیٰ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی کہ جو شخص کسی قوم کی جماعت کو بڑھائے وہ ان ہی میں سے ہے اور جو شخص کسی قوم کے کاموں سے راضی ہو وہ گویا خود وہ کام کر رہا ہے۔ اس حدیث سے اہل حدیث اور فسق کی مجلسوں میں شریک اور ان کا شمار بڑھانے کی ممانعت نکلتی ہے گو یہ آدمی ان کے اعتقاد اور عمل میں شریک نہ ہو جو کوئی حال قال چراغاں عرس گانے بجانے کی محفل میں شریک ہو وہ بھی بدعتیوں میں گنا جائے گا گو ان کاموں کو اچھا نہ جانتا ہو۔ (از وحیدالزماں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7084
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3606
3606. حضرت حذیفہ بن یمان ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شرکے متعلق سوال کرتا تھا، اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا میں اس کا شکار ہو جاؤں، چنانچہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ہم جاہلیت اور شرکے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس خیرو برکت سے سر فراز فرمایا۔ کیا اب اس خیر کے بعد پھر کوئی شرکا وقت آئے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کیا: اس شرکے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، لیکن اس خیر میں کچھ دھواں ہوگا۔“ میں نے عرض کیا: وہ ھواں کیا ہو گا؟آپ نے جواب دیا۔ ”ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ تم ان میں اچھی اور بری چیز یں دیکھو گے۔“ میں نے عرض کیا: آیا اس خیر کے بعد پھر شرکاکوئی زمانہ آئے گا؟آپ نے فرمایا: ”ہاں، جہنم کی طرف بلانے والے لوگ ہوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3606]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی کئی ایک پیش گوئیوں پر مشتمل ہے جن کی ہم کتاب الفتن میں وضاحت کریں گے۔ 2۔ اس حدیث میں کسی نئی جماعت بنانے کا قطعی طور پر کوئی اشارہ نہیں ہے جیسا کہ لوگوں نے ایک جماعت المسلمین بنا ڈالی ہے بلکہ اس میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے اور ان کے امام کی اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی اس جماعت سے علیحدہ رہے گا تو وہ شیطان کے نرغے میں آجائے گا نیز اس حدیث میں جماعت المسلمین سے مراد اہل اسلام کی حکومت اور امام سے مراد ان کا خلیفہ ہے چنانچہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔ ”اگر ان دنوں کوئی خلیفہ زمین میں موجود ہوتو اسے لازم پکڑنا اگرچہ وہ تجھے مار مار کر تیرا جسم نڈھال کردے اور تیرا مال بھی چھین لے اور اگر کوئی خلیفہ نہ ہو تو زمین میں بھاگ کھڑا ہونا اور کسی درخت کو پناہ گاہ بنا کروہیں موت سے ہمکنار ہوجانا۔ “(مسند أحمد: 403/5) اس حدیث میں خلیفہ نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین بنانے کاحکم نہیں بلکہ وہاں سے بھاگ جانے کا حکم ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔ ”اگر حکومت نہ ہو تو معاملے کی کیا صورت ہو گی۔ ؟“ شارح بخاری حافظ ابن حجر ؒ اس کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایک خلیفہ پر اجماع سے پہلے اختلاف کی حالت مین ایک مسلمان کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 35/13) اس میں کسی جماعت المسلمین کا ذکر نہیں جس کے پاس کسی قسم کا اختیار نہ ہو بلکہ نئی جماعت خود اپنے تحفظات کے لیے حکومت وقت کی محتاج ہے کیونکہ انھوں نے درخواست دے کر خود رجسٹرڈ کرایا ہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3606
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7084
7084. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں اس ڈر سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا کہیں میری زندگی ہی میں شر پیدا نہ ہوجائے، چنانچہ میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے، پھر اللہ تعالٰی نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اس میں کچھ ”دخن“ ہوگا میں نے پوچھا: ”اس کا دخن کیا ہوگا۔“ آپ نے فرمایا: ”کچھ لوگ ہوں گے جو میرے بتائے ہوئے طریقے کے برعکس چلیں گے۔ ان کی کچھ باتیں اچھی ہوں گی اور بعض باتوں میں تم برائی دیکھو گے۔“ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا دور آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جہنم کے دروازوں پر اس کی دعوت دینے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7084]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں امام سے مراد کسی تنظیم کا امیر یا صدر نہیں اور نہ وہ سربراہِ حکومت ہی مراد ہیں جو مغربی جمہوریت کی پیداوار ہیں بلکہ اس سے مراد خلیفۃ المسلمین ہے جوتمام مسلمانوں کا سربراہ ہو،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر ان دنوں زمین پر کوئی خلیفہ ہو تو اسے لازم پکڑو اگرچہ وہ تجھے سخت مارے اور تیرا سارا مال چھین لے۔ (مسندأحمد: 403/5، و الدیلمي: 31519 رقم 5621) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے لیے پرفتن دور میں زندگی بسر کرنے کا منہج اور طریقہ بتایا ہے اگر عالم اسلام میں مسلمانوں کا کوئی امیر ہو تو اس کی اطاعت کی جائے اگرچہ اس میں کچھ نقص بھی ہو اور کچھ منکرات کا مرتکب بھی ہو اور اگر مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وزن کسی ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالنے کے بجائے علیحدگی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت وفرماں برداری کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر تیسری صورت جماعت تشکیل دینے کی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ضرور ہدایت فرماتے کہ تم ایسے حالات میں خود کوئی جماعت بنالو اور ان میں سے ایک امیر منتخب کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرتے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ پرفتن دور میں جماعت بنانا اور لوگوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے خلاف ہے۔ 3۔ ہمارے رجحان کے مطابق خلیفے کی عدم موجودگی میں امارت کے چکر میں پڑ جانے کے بجائے انفرادی یا اجتماعی طور پر قرآن وحدیث پر خود عمل کیا جائے اور یہی دعوت لوگوں میں پھیلائی جائے، نیز جماعتی تعصب سے خود کو بالاتر رکھا جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7084