مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3919
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ایک نوجوان کنوارا آدمی ضرورت پڑنے پر دن یا رات کو مسجد میں سوسکتا ہے۔
(2)
نیک آدمی کی اس انداز سے تعریف کرنا جائز ہے جس سے اس میں فخر کے جذبات پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔
(3)
نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے موجود نیکی کا ذکر کرکے کوتاہی بیان کرنا درست ہے تاکہ اصلاح کی ہمت پیدا ہو۔
(4)
اس میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کا اشارہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3919
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 723
´مسجد میں سونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جب وہ نوجوان اور غیر شادی شدہ تھے تو مسجد نبوی میں سوتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 723]
723 ۔ اردو حاشیہ: مسجد سونے کے لیے نہیں بنائی گئی، لہٰذا مسجد کو بلاوجہ اور مستقل سونے کے لیے استعمال کرنا درست نہیں، البتہ ضرورت کے پیش نظر جائز ہے، مثلاً: نماز کے انتظار میں کچھ دیر سستا لینا یا اعتکاف کے دوران میں آرام کرنا یا بے گھر اور مسافر آدمی کا مسجد میں ٹھہرنا، اسی طرح طالب علم جو مسجد میں تعلیم حاصل کر رہا ہو، کا مسجد میں رہائش اختیار کرنا وغیرہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما چونکہ غیرشادی شدہ تھے، لہٰذا بے گھر کے زمرے میں آتے تھے۔ اس حدیث سے مزید ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اجازت صرف بوڑھے کے لیے نہیں بلکہ نوجوان بھی سوسکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 723
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3825
´عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میرے ہاتھ میں موٹے ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور اس سے میں جنت کی جس جگہ کی جانب اشارہ کرتا ہوں تو وہ مجھے اڑا کر وہاں پہنچا دیتا ہے، تو میں نے یہ خواب (ام المؤمنین) حفصہ رضی الله عنہا سے بیان کیا پھر حفصہ رضی الله عنہا نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”تیرا بھائی ایک مرد صالح ہے“ یا فرمایا: ”عبداللہ مرد صالح ہیں“ ۱؎۔ امام ترمذی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3825]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کسی کے صالح ہونے کی شہادت اللہ کے رسول ﷺدیں،
اس کے شرف کا کیا پوچھنا!۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3825
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1122
1122.۔ (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے یہ خواب (اپنی ہمشیرہ) حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”عبداللہ اچھا آدمی ہے کاش کہ وہ تہجد پڑھنے کا التزام کرے۔“ اس کے بعد وہ (عبداللہ بن عمر ؓ) رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1122]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے اس خواب کو آنحضرت ﷺ نے ان کی رات میں غفلت کی نیند پر محمول فرمایا اور ارشاد ہوا کہ وہ بہت ہی اچھے آدمی ہیں مگر اتنی کسر ہے کہ رات کو نماز تہجد نہیں پڑھتے۔
اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے نماز تہجد کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز تہجد کی بے حد فضیلت ہے۔
اس بارے میں کئی احادیث مروی ہیں۔
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
علَیکُم بقیامِ اللیل فإِنهُ دأبُ الصالحینَ قبلکُم۔
یعنی اپنے لیے نمازتہجد کو لازم کر لو یہ تمام صالحین، نیکو کار بندوں کا طریقہ ہے۔
حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ رات میں تہجد پڑھنا دوزخ سے نجات پانے کا باعث ہے۔
حضرت سلیمان ؑ کو ان کی والدہ نے نصیحت فرمائی تھی رات بہت سونا اچھا نہیں جس سے آدمی قیامت کے دن محتاج ہو کر رہ جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1122
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7016
7016. سیدہ حفصہ ؓ نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ تمہارے بھائی نیک سیرت آدمی ہیں۔“ یا فرمایا: ”عبداللہ نیک آدمی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7016]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے پر اشارہ ہے جو آیت ﴿لھمُ البُشریٰ﴾ کے تحت بشارت الٰہی ہے‘ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7016
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 440
440. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے جب کہ وہ غیر شادی شدہ جوان تھے اور ان کا گھر بار نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:440]
حدیث حاشیہ:
ادب کے ساتھ بوقت ضرورت جوانوں بوڑھوں کے لیے مسجد میں سونا جائز ہے۔
صفہ مسجد نبوی کے سامنے ایک سایہ دار جگہ تھی۔
جوآج بھی مدینہ منورہ جانے والے دیکھتے ہیں، یہاں آپ ﷺ سے تعلیم حاصل کرنے والے رہتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 440
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:440
440. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے جب کہ وہ غیر شادی شدہ جوان تھے اور ان کا گھر بار نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:440]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نکاح سے پہلے ان کا گھر مسجد ہی تھا اور آپ وہیں سوتے تھے۔
(صحیح البخاري، التعبیر،حدیث: 7028)
حضرت ابن عمر ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کوشش کی کہ رہنے کے لیے جھونپڑی بنا لوں، مگر افسوس کہ مخلوق میں سے کسی نے میری مدد نہ کی۔
(سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4162)
اس لیے وہ مسافر سے بھی زیادہ مسجد میں اقامت گزیں ہونے کے حقدار تھے۔
واضح رہے کہ ان جزوی واقعات سے مسجد میں سونے کی اجازت کو ثابت کیا جا رہا ہے۔
ان سے مراد میں سونے کی ترغیب نہیں، کیونکہ یہ اجازت صرف ضرورت کے پیش نظر ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 440
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1122
1122.۔ (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے یہ خواب (اپنی ہمشیرہ) حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”عبداللہ اچھا آدمی ہے کاش کہ وہ تہجد پڑھنے کا التزام کرے۔“ اس کے بعد وہ (عبداللہ بن عمر ؓ) رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1122]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مسجد میں اس وقت رہائش پذیر تھے جب ان کا اپنا مکان وغیرہ نہیں تھا۔
وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے بارش اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے اپنا مکان بنایا، لیکن اس کی تعمیر میں کسی نے بھی میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا۔
(سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4182)
اس خواب کے ذریعے سے انہیں خبردار کیا گیا کہ جس مسجد میں تم رہائش رکھتے ہو کم از کم نماز تہجد پڑھ کر اس کا حق تو ادا کرو۔
(فتح الباري: 11/3) (2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے نماز تہجد کی فضیلت ثابت کی ہے، کیونکہ اس کی پابندی کرنا دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہے۔
شاید امام بخاری کے ہاں ایسی کوئی حدیث صحیح نہیں تھی جس میں صراحت کے ساتھ نماز تہجد کی فضیلت ثابت ہو۔
صحیح مسلم میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”فرض نماز کے بعد نماز تہجد بہت فضیلت والی ہے۔
“ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2755(1163) (3)
حضرت سالم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نماز تہجد کا اس قدر اہتمام کیا کہ رات کو بہت کم سوتے تھے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3739)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1122
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7016
7016. سیدہ حفصہ ؓ نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ تمہارے بھائی نیک سیرت آدمی ہیں۔“ یا فرمایا: ”عبداللہ نیک آدمی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7016]
حدیث حاشیہ:
1۔
دراصل حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث ان کے دو خوابوں پر مشتمل ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک موٹے ریشم کا ٹکڑا ہے۔
میں جنت کے جس مقام کا ارادہ کرتا ہوں وہ مجھے وہاں لے جاتا ہے۔
پھر میں نے ایک دوسرے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے آگ کی طرف لے گئے انھیں ایک تیسرا فرشتہ ملا تو اس نے کہا:
عبد اللہ! گھبرانے کی ضرورت نہیں پھر ان سے مخاطب ہوا کہ اسے چھوڑ دو۔
میں نے یہ خواب حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا۔
انھوں نے اس کا ایک حصہ (جو آگ والا تھا)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا:
”عبد اللہ اچھا آدمی ہے اگر قیام اللیل کا اہتمام کیا کرے۔
“ (صحیح البخاري، التهجد، حدیث: 1156۔
1157)
اس کے بعد حضرت عبد اللہ رات کو بہت کم سوتے تھے۔
(صحیح البخاري التهجد، حدیث: 1122)
2۔
حافظ ابن حجر نے ایک روایت کی نشاندہی کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت سوتے تھے اور جس فرشتے نے خواب میں آپ کو تسلی دی تھی اس نے کہا کہ نماز سے سستی نہ کیا کرو۔
آپ اچھے آدمی ہیں صرف نماز تہجد کے اہتمام کی کمی ہے۔
(فتح الباری: 12/505)
بہر حال حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد گرامی اس خواب کا حصہ ہے جس میں انھیں آگ سے ڈرایا گیا تھا اور ایک فرشتے نے انھیں تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
آپ اس میں داخل نہیں ہوں گے۔
آپ نماز تہجد پڑھنے کا اہتمام کیا کریں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7016