صہیب الخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خضاب تم لگاتے ہو ان میں بہترین کالا خضاب ہے، اس سے عورتیں تمہاری طرف زیادہ راغب ہوتی ہیں، اور تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہاری ہیبت زیادہ بیٹھتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4965، ومصباح الزجاجة: 1264) (ضعیف)» (عمر بن خطاب بن زکریا راسبی اور دفاع سدوسی دونوں ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف دفاع: ضعيف (تقريب: 1827) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 508
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 3625
فوائد و مسائل: اولاً: دفاع بن دغفل ”ضعیف“ ہے۔ ثانیاً: راوی عبدالحمید بن صیفی دراصل عبدالحمید بن زیاد بن صیفی ہے۔ وہ ”لین الحدیث“ ہے دونوں کا ترجمہ تقریب میں مذکور ہے۔ ثالثاً: راوی عمر بن خطاب الراسبی کے لیے تقریب میں لکھا ہے۔ «مقبول» اور تقریب کے مقدمہ میں: ◈ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: «السادسة: من ليس له من الحديث الا القليل و ثم يثبت فيه ما يترك حديثه من اجله واليه الاشارة بلفظ مقبول حيث يتابع والافلين الحديث» یعنی چھٹی قسم وہ ہے جو راوی کی بالکل قلیل روایتیں ہوں لیکن اس میں کوئی جرح قادح ثابت نہیں تو جہاں کوئی دوسرا راوی اس کی متابعت کرے تو وہ مقبول ہے ورنہ ”لین الحدیث“ یعنی کمزور راوی ہے۔ چونکہ اس کی متابعت نہیں ہے لہٰذا یہ بھی یہاں ”لین الحدیث“ ہوا۔ رابِعاً: عبدالحمید کے والد صیفی بن صھیب کو بھی تقریب میں مقبول کہا گیا ہے۔ چونکہ اس کی متابعت یہاں نہیں ہے لہٰذا یہ بھی یہاں ”لین الحدیث“ ہے۔ گویا کہ اس کی سند میں مسلسل چار راوی ضعیف ہیں۔ خامسًا: سند میں ”انقطاع“ کا شبہ بھی ہے۔ چنانچہ: ◈ حافظ ذہبی رحمه الله [ميزان لاعتدال ص 2/ 14] میں فرماتے ہیں: «عبدالحميد بن زياد بن صيفي بن صهيب عن ابيه عن جده قال البخاري لايعرف سماع بعضهم من بعض» یعنی اس سند میں عبدالحمید بن زیادہ بن صیفی بن صہیب وہ اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے بعض کا بعض سے سماع یعنی سننا معلوم نہیں، پس یہ روایت ضعیف اور مسلم شریف کی صحیح حدیث اور دیگر ذکر شدہ احادیث کے خلاف ہے۔ لہذا باطل اور مردود ہے۔ ◈ ابن ماجہ کے حاشیہ میں اسی حدیث پر بحوالہ انجاح الحاجہ مصنفہ الشیخ عبدالغنی الدہلوی المدنی منقول ہے: «قوله ان احسن ما اختضبتوبه لهذا السواد هذا مخالف لرواية جابر السابقة وهو صحيح اخرجه مسلم وفي رواية ابي داود والنسائي عن ابن عباس عن النبى صلى الله عليه وسلم قال يكون فى آخر الزمان يخضبون بهذا السواد كحواصل الحمام لا يجذون رائحة الجنة۔ وهذا الحديث يعني حديث ابن ماجة عن صهيب ضعيف لان دفاع السدوسي ضعيف كما فى القريب وعبدالحميد بن صيفي لين الحديث ومذهب الجمهور المنع» یعنی یہ ابن ماجہ والی روایت اول تو مسلم والی صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ دوسری ابوداود اور نسائی والی روایت جس میں تنبیہ آئی ہے کہ کالا خضاب کرنے والے جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گے۔ اس کے بھی خلاف ہے۔ اور پھر وہ خود ضعیف بھی ہے کیونکہ اس کا راوی دفاع السدوسی ضعیف ہے۔ دوسرا راوی عبدالحمید بن صیفی کمزور ہے۔ اور جمہور کے مذہب میں کالا خضاب ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ «هذا ما عندنا والله اعلم بالصواب»