انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پچھنا لگوانا چاہے تو (ہجری) مہینے کی سترہویں، انیسویں یا اکیسویں تاریخ کو لگوائے، اور (کسی ایسے دن نہ لگوائے) جب اس کا خون جوش میں ہو کہ یہ اس کے لیے موجب ہلاکت بن جائے“۱؎۔
وضاحت: ۱ ؎: ابوداود نے کبشہ سے روایت کی کہ ان کے باپ منگل کے دن پچھنا لگوانے کو منع کرتے تھے اور کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منگل کے دن ایک ساعت ایسی ہے جس میں خون بند نہیں ہوتا، اور منگل کا دن خون کا دن ہے، اور آگے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آتا ہے کہ پیر اور منگل کے دن پچھنے لگواؤ، پس دونوں میں تعارض ہو گیا، اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو مہینے کی سترھویں تاریخ کو پڑے کیونکہ طبرانی میں معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے منگل کے دن سترھویں تاریخ کو پچھنے لگوائے، وہ اس کے لئے سال بھر تک دوا ہوں گے، اور کبشہ کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو سترہویں تاریخ کے سوا اور کسی تاریخ میں پڑے اور سنن ابی داود میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے جس نے پچھنے لگوائے سترھویں، یا انیسویں، یا اکیسویں کو وہ ہر بیماری سے شفا پائیں گے۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا نهاس بن قھم: ضعيف وتلميذه زكريا بن ميسرة مستور،و عثمان بن مطر: ضعيف (تقريب: 2027،4519) والراوي عنه سويد بن سعيد ضعيف فالسند ظلمات انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3486
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دوسرے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ اس کی سند ضعیف ہے لیکن متن صحیح ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیاہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مذید تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألبانی رقم: 1847، 7247، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم: 3486) چاند کی مختلف تاریخوں میں انسان کے جسم کے بعض کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے احادیث میں وارد ہدایات کومد نظر رکھناچاہیے۔
(2) قمری مہینے کا تیسرا ہفتہ سینگی لگوانے کےلئے زیادہ مناسب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3486