ام المنذر بنت قیس انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ کے ساتھ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ اس وقت ایک بیماری کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے، ہمارے پاس کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کھا رہے تھے، تو علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں سے کھانے کے لیے لیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی ٹھہرو! تم بیماری سے کمزور ہو گئے ہو، ام منذر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چقندر اور جو پکائے، تو آپ نے فرمایا: ”علی! اس میں سے کھاؤ، یہ تمہارے لیے مفید ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پرہیز کرنا چاہئے، ایک دوسرے حدیث میں پرہیز و احتیاط کو ہر علاج کا راز بتایا گیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پرہیزی سے اللہ کے حکم سے دوا کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ بدپرہیزی دواؤں کی تاثیر کو معطل کر کے جسم میں دوسری خرابیاں پیدا کر دیتی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 2 (3856)، سنن الترمذی/الطب 1 (2037)، (تحفة الأشراف: 18362)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/363، 364) (حسن)» (سند میں فلیح بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 59)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3856
´کھانے میں پرہیزی اور احتیاط کا بیان۔` ام منذر بنت قیس انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ تھے، ان پر کمزوری طاری تھی ہمارے پاس کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر انہیں کھانے لگے، علی رضی اللہ عنہ بھی کھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”ٹھہرو (تم نہ کھاؤ) کیونکہ تم ابھی کمزور ہو“ یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ رک گئے، میں نے جو اور چقندر پکایا تھا تو اسے لے کر میں آپ کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! اس میں سے کھاؤ یہ تمہارے لیے مف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3856]
فوائد ومسائل: انسان کو جن چیزوں کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اسکے لیئے نقصان دہ ہیں یا بیماری کا سبب بن سکتی ہیں، اسے ان سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ بیمار انسان کو صحت یابی کے لیئے خصوصی طور پر پرہیز کرنا چاہیئے۔ اور معالج کو بھی چاہیئے کہ اپنے زیرِ علاج مریض کوضرور ی پرہیز کی نشاندہی کرے۔ اور مریض اس پر عمل کرے۔ 2) سیدہ سلمی اُمِ منذرؓ ان باسعادت صحابیات میں سے ہیں جنہیں بعیتِ رضوان میں شمولیت کا شرف حاصل ہو تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3856
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2037
´پرہیزی کا بیان۔` ام منذر رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی الله عنہ کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے، ہمارے گھر کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کھانے لگے اور آپ کے ساتھ علی رضی الله عنہ بھی کھانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ سے فرمایا: علی! ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہو، ابھی کمزوری باقی ہے، ام منذر کہتی ہیں: علی رضی الله عنہ بیٹھ گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے رہے، پھر میں نے ان کے لیے چقندر اور جو تیار کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: علی! اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2037]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مریض اپنے مزاج و طبیعت کا خیال رکھتے ہوئے کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہواکہ مرض سے شفایابی کے بعد بھی بیمار احتیاط برتتے ہوئے نقصان دہ چیزوں کے کھانے پینے سے پرہیز کرے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2037