(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة , حدثنا عثمان بن عبد الرحمن , حدثنا حميد الطويل , عن انس بن مالك , قال: صنعت ام سليم للنبي صلى الله عليه وسلم خبزة , وضعت فيها شيئا من سمن , ثم قالت: اذهب إلى النبي صلى الله عليه وسلم فادعه , قال: فاتيته , فقلت: امي تدعوك , قال: فقام وقال لمن كان عنده من الناس:" قوموا"، قال: فسبقتهم إليها فاخبرتها , فجاء النبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" هاتي ما صنعت" , فقالت: إنما صنعته لك وحدك , فقال:" هاتيه" , فقال:" يا انس ادخل علي عشرة عشرة" , قال: فما زلت ادخل عليه عشرة عشرة , فاكلوا حتى شبعوا وكانوا ثمانين. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: صَنَعَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزَةً , وَضَعَتْ فِيهَا شَيْئًا مِنْ سَمْنٍ , ثُمَّ قَالَتْ: اذْهَبْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَادْعُهُ , قَالَ: فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: أُمِّي تَدْعُوكَ , قَالَ: فَقَامَ وَقَالَ لِمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنَ النَّاسِ:" قُومُوا"، قَالَ: فَسَبَقْتُهُمْ إِلَيْهَا فَأَخْبَرْتُهَا , فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" هَاتِي مَا صَنَعْتِ" , فَقَالَتْ: إِنَّمَا صَنَعْتُهُ لَكَ وَحْدَكَ , فَقَالَ:" هَاتِيهِ" , فَقَالَ:" يَا أَنَسُ أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً عَشَرَةً" , قَالَ: فَمَا زِلْتُ أُدْخِلُ عَلَيْهِ عَشَرَةً عَشَرَةً , فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَكَانُوا ثَمَانِينَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(میری والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روٹی تیار کی، اور اس میں تھوڑا سا گھی بھی لگا دیا، پھر کہا: جاؤ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لاؤ، میں نے آپ کے پاس آ کر عرض کیا کہ میری ماں آپ کو دعوت دے رہی ہیں تو آپ کھڑے ہوئے اور اپنے پاس موجود سارے لوگوں سے کہا کہ ”اٹھو، چلو“، یہ دیکھ کر میں ان سب سے آگے نکل کر ماں کے پاس پہنچا، اور انہیں اس کی خبر دی (کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت سارے لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں) اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ پہنچے، اور فرمایا: ”جو تم نے پکایا ہے، لاؤ“، میری ماں نے عرض کیا کہ میں نے تو صرف آپ کے لیے بنایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لاؤ تو سہی“، پھر فرمایا: ”اے انس! میرے پاس لوگوں میں سے دس دس آدمی اندر لے کر آؤ“، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دس دس آدمی آپ کے پاس داخل کرتا رہا، سب نے سیر ہو کر کھایا، اور وہ سب اسّی کی تعداد میں تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ! کھانا ایک آدمی کا اور اسی ۸۰ آدمیوں کو کافی ہو گیا، اس حدیث میں آپ ﷺ کے ایک بڑے معجزہ کا ذکر ہے، اور اس قسم کے کئی بار اور کئی موقعوں پر آپ ﷺ سے معجزے صادر ہوئے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ایسا ہی معجزہ انجیل میں مذکور ہے، اور یہ کچھ عقل کے خلاف نہیں ہے، ایک تھوڑی سی چیز کا بہت ہو جانا ممکن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے سامنے نہایت سہل ہے، وہ اگر چاہے تو دم بھر میں رتی کو پہاڑ کے برابر کر دے، اور پہاڑ کو رتی کے برابر، اور جن لوگوں کے عقل میں فتور ہے، وہ ایسی باتوں میں شک و شبہ کرتے ہیں، ان کو اب تک ممکن اور محال کی تمیز نہیں ہے، اور جو امور ممکن ہیں ان کو وہ نادانی سے محال سمجھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہر مسلمان کو بچائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 731)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 6 (5381)، صحیح مسلم/الأشربة 20 (2040)، سنن الترمذی/المناقب 6 (3630)، موطا امام مالک/صفة النبی صفة 10 (19)، مسند احمد (1/159، 198، 3/11، 147، 163، 218) (صحیح)»