رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ نامی جگہ میں تھے، ہم نے اونٹ اور بکریاں مال غنیمت میں پائیں، پھر لوگوں نے (گوشت کاٹنے میں) عجلت سے کام لیا، اور ہم نے (مال غنیمت) کی تقسیم سے پہلے ہی ہانڈیاں چڑھا دیں، پھر ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا، تو وہ الٹ دی گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر ٹھہرایا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے یہ نہیں معلوم ہوا کہ قربانی میں اونٹ دس بکریوں کے برابر ہے یعنی ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں، یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے بلکہ یہ خاص تھا اس موقع سے شاید وہاں کے اونٹ بڑے اور تیار ہوں گے، بکریاں چھوٹی ہوں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر رکھا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3137
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس حدیث سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ چونکہ اونٹ دس بکریوں کے برابر ہے لہٰذا اونٹ میں دس آدمی شریک ہوکر قربانی کرسکتے ہیں لیکن یہ دلیل واضح نہیں کیونکہ ممکن ہے اس وقت اونٹ کم اور بکریاں زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک اونٹ کی قیمت دس بکریوں کے برابر شمار کی گئی ہو۔ یا اونٹ عمدہ اور بکریاں دبلی ہونے کی وجہ سے شرح رکھی گئی ہو۔ دیکھئے: (فتح الباري: 9/ 775) اور غنیمت تقسیم کرتے وقت حصوں کی قیمت برابر ہونے کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
(2) غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے کوئی مجاہد غنیمت کی کسی چیز پر قبضہ نہیں کرسکتا۔
(3) بعض اوقات کسی غلطی پر مالی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
(4) اس حدیث میں ذوالحلیفہ سے مراد وہ مشہور مقام نہیں جو اہل مدینہ کا میقات ہے بلکہ یہ یمن کے علاقے میں ہے۔ (محمد فواد عبد الباقي حاشية سنن ابن ماجة)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3137
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3075
´مال غنیمت کے اونٹ بکریوں کو تقسیم سے پہلے ذبح کرنا مکروہ ہے` «. . . عَنْ جَدِّهِ رَافِعٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ وَأَصَبْنَا إِبِلًا وَغَنَمًا، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُخْرَيَاتِ النَّاسِ" فَعَجِلُوا فَنَصَبُوا الْقُدُورَ، فَأَمَرَ بِالْقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ ثُمَّ قَسَمَ فَعَدَلَ عَشَرَةً مِنَ الْغَنَمِ بِبَعِيرٍ فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ وَفِي الْقَوْمِ خَيْلٌ يَسِير فَطَلَبُوهُ، فَأَعْيَاهُمْ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ: هَذِهِ الْبَهَائِمُ لَهَا أَوَابِدُ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا نَدَّ عَلَيْكُمْ فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا، فَقَالَ جَدِّي: إِنَّا نَرْجُو أَوْ نَخَافُ أَنْ نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ، فَقَالَ: مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ . . . .» ”. . . رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑاؤ کیا۔ لوگ بھوکے تھے۔ ادھر غنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے پیچھے حصے میں تھے۔ لوگوں نے (بھوک کے مارے) جلدی کی ہانڈیاں چڑھا دیں۔ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان ہانڈیوں کو اوندھا دیا گیا پھر آپ نے غنیمت کی تقسیم شروع کی دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی۔ لوگ اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک صحابی (خود رافع رضی اللہ عنہ) نے اسے تیر مارا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (پالتو) جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح بعض دفعہ وحشت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر ان میں سے کوئی قابو میں نہ آئے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔ عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا (رافع رضی اللہ عنہ) نے خدمت نبوی میں عرض کیا ‘ کہ ہمیں امید ہے یا (یہ کہا کہ) خوف ہے کہ کل کہیں ہماری دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے۔ ادھر ہمارے پاس چھری نہیں ہے۔ تو کیا ہم بانس کی کھپچیوں سے ذبح کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیز خون بہا دے اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا گیا ہو ‘ تو اس کا گوشت کھانا حلال ہے۔ البتہ وہ چیز (جس سے ذبح کیا گیا ہو) دانت اور ناخن نہ ہونا چاہئے۔ تمہارے سامنے میں اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں دانت تو اس لیے نہیں کہ وہ ہڈی ہے اور ناخن اس لیے نہیں کہ وہ حبشیوں کی چھری ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 3075]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3075 کا باب: «بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ ذَبْحِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ فِي الْمَغَانِمِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ مال غنیمت کے اونٹ، بکریوں کو قبل از تقسیم ذبح کرنا جائز نہیں، امام بخاری رحمہ اللہ اس مقام پر غالبا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دار الحرب میں جو چیزیں کھانے کے لئے میسر ہوں مثلا: پھل، روٹی، سالن وغیرہ تو ان کا استعمال بلا اجازت درست ہے۔ اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے «كتاب الخمس» میں کچھ یوں باب قائم فرمایا: «باب ما يصيب من طعام فى أرض العدو» جس سے آپ نے جمہور کی موافقت کرتے ہوئے جواز کی تصریح فرمائی ہے۔ لیکن اگر مجاہدین بغیر اذن جانور ذبح کریں تو یہ درست نہ ہوگا۔ علامہ مہلب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «. . . . . و ذالك ان القصة وقعت فى دار السلام لقوله فيها ”بذي الحليفة“.»[فتح الباري، ج 6، ص: 234] یہ واقع دار السلام یعنی ذو الحلیفہ کے مقام پر پیش آیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بغیر اذن کے تقسیم غنائم سے قبل جانور ذبح فرمائے، گوشت پکانے کے لئے ہانڈی چولہے پر چڑھائی نہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس الٹنے کا حکم دیا ہے۔ ایک پیچیدہ مسئلے کی طرف شارحین نے توجہ دلائی کہ گوشت سے بھری ہانڈیاں الٹنے کا جو حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا، اب اس میں یہ اشکال وارد ہو سکتا ہے کہ گوشت مال غنیمت اور مسلمانوں کا اجتماعی ملکیت تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضائع کرنے کا حکم کس وجہ سے دیا؟ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جب امام کی اجازت بغیر على وجہ التعدی جانور ذبح کیا جائے تو وہ مذبوحہ «ميته» بن جاتا ہے۔“[المتواري، ص: 183] امام بخاری رحمہ اللہ بھی مذکورہ واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے اسی مسئلہ کی طرف مائل ہیں کہ مذبوح جانور «ميته» بن گیا، احادیث کے مطابق «ميته» جانور نجس ہوا کرتا ہے اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضائع کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ ابن المنیر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کا ایک اور رحجان کا ذکر فرمایا، آپ فرماتے ہیں: «وكأن البخاري رحمه الله اقتصر لهذا المذهب أو حمل الاكفاء على العقوبة بالمال و إن كان ذالك المال لا يختص بأولئك الذين ذبحوا، لكن لما تعلق به طمعهم كانت النكاية حاصلة لهم قال و إذا جوزنا هذا النوع من العقوبة فعقوبة صاحب المال فى ماله أدنى.»[فتح الباري، ج 6، ص: 232] ”یعنی ممکن ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے ”اکفاء بالقدور“ کو عقوبت مالی (یعنی تعزیر مالی) پر محمول کیا ہو، اگرچہ وہ مال (جانور) ذبح کے واقعہ میں ملوث مجاہدین کی انفرادی ملکیت نہ تھی، لیکن ان کی طمع اس سے لازما وابستہ تھی، لہذا گوشت کے ضیاع سے انہیں مال کی سزا دی گئی۔“ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «المأمور باكفائه انما هو المرق عقوبة للذين تعجلو، و أما نفس اللحم فلم يتلف، بل يحتمل على أنه جمع و رد إلى المغنم لأن النهي عن أضاعة المال تقدم، و الجناية بطبخه لم تقع من الجميع إذ حملتهم أصحاب الخمس . . .»[ارشاد الساري للقسطلاني، ج 5، ص: 447] دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف شوربہ الٹنے کا حکم صادر فرمایا تھا گوشت ضائع کرنے کا نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گوشت بعد میں مال غنیمت میں شامل کر لیا گیا ہو۔ اس واسطے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت میں مال کے ضائع ہونے پر ممانعت وارد ہے۔ پھر جرم کا اقبال بھی چند افراد نے انفرادی طور پر کیا تھا، کچھ اصحاب خمس ایسے تھے جو اس جرم میں شریک نہ تھے اور گوشت میں ان کا حق موجود تھا، چونکہ کسی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ گوشت ضائع کرنے کا حکم دیا گیا ہو، اسی وجہ سے شرعی قواعد کے اعتبار سے اس کا حکم خود معلوم اور متعین ہو جاتا ہے۔ لہذا «للحوم الحمر اهليه» کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «إنها رجس» کہ وہ ناپاک ہے فرما کر تلف کرنے کا حکم دیا تھا، اگر اس گوشت کا بھی یہی حکم ہوتا تو روایت باب کے واقعہ میں بھی ایسا ہی حکم ہوتا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ واقعہ جانور کا گوشت لحوم حمر اہلیہ کی طرح نجس قرار دے کر ضائع کرنے کا حکم نہیں دیاگیا تھا۔ ابو زکریا المصری الشافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی رحجان ہے۔ [منتحة الباري شرح صحيح البخاري، ج 6، ص: 189] چنانچہ شارحین نے مختلف قسم کی توجیہات نقل فرمائی ہیں: کسی نے کہا کہ یہ دار الاسلام کا واقعہ تھا، کسی نے کہا کہ یہاں بہائم میں قلت تھی، کسی نے کہا کہ ذبح کرنا طریق لتعدی پر مبنی تھا۔ [الأبواب والتراجم، ج 4، ص: 322] لہذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا، یہ الفاظ «فأمر بالقدور» کے الفاظ میں وارد ہیں اور یہ کراہیت پر محمول ہے، لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1600
´لوٹ کے مال کی کراہت کا بیان۔` رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، جلد باز لوگ آگے بڑھے اور غنیمت سے (کھانے پکانے کی چیزیں) جلدی لیا اور (تقسیم سے پہلے اسے) پکانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پیچھے آنے والے لوگوں کے ساتھ تھے، آپ ہانڈیوں کے قریب سے گزرے تو آپ نے حکم دیا اور وہ الٹ دی گئیں، پھر آپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا، آپ نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1600]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: تقسیم سے قبل یہ جلد باز لوگ اس مشترکہ مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور بکریوں کو ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس لوٹے ہوئے مال کو حرام قرار دیا اور چولہے پر چڑھی ہانڈیوں کے الٹ دینے کا حکم دیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1600
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3075
3075. حضرت رافع بن خدیج ؓسے روایت ہےانھوں نے کہا کہ مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ پڑاؤ کیا۔ لوگوں کو سخت بھوک لگی۔ ادھرغنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ نبی کریم ﷺ لشکر کے پچھلے حصےمیں تھے۔ لوگوں نے جلدی جلدی ذبح کرکے گوشت کی ہنڈیاں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ کے حکم پر ان ہنڈیوں کو الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی۔ لوگ اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک صحابی نے اسے تیر مارا تو اللہ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہی رہ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان پالتو جانوروں میں بعض دفعہ جنگلی جانوروں کو طرح وحشت آجاتی ہے، اس لیے اگران میں سے کوئی قابو نہ آئے تو اس کے ساتھ یہی سلوک کرو۔“ راوی حدیث نے کہا کہ میرے دادا نے عرض کیا: ہمیں امید یا اندیشہ ہے کہ کل کہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3075]
حدیث حاشیہ: رافع ؓ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ تلوار سے ہم جانوروں کو اس لئے نہیں کاٹ سکتے کہ کل پرسوں جنگ کا اندیشہ ہے۔ ایسا نہ ہو تلواریں کند ہو جائیں۔ تو کیا ہم بانس کی کھپچیوں سے کاٹ لیں کہ ان میں بھی دھار ہوتی ہے۔ ہڈی جنوں کی خوراک ہوتی ہے ذبح کرنے سے نجس ہو جائے گی۔ ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں حبشی اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت سے منع فرمایا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: وموضع الترجمة منه أمرہ صلی اللہ علیه وسلم بإکفاء القدور فإنه مشعر بکراهة ما صنعوا من الذبح بغیر إذن (ف) یعنی باب کا مطلب اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریمﷺ نے ہانڈیوں کو الٹا کر دیا۔ اس لئے کہ بغیر اجازت ان کا ذبیحہ مکروہ تھا۔ شوربا بہا دیا گیا۔ وأما اللحم فلم یتلف بل یحمل علٰی أنه جمع ورد إلی المغانم۔ یعنی گوشت کو تلف کرنے کی بجائے جمع کر کے مال غنیمت میں شامل کر دیا گیا۔ واللہ أعلم بالصواب
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3075
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3075
3075. حضرت رافع بن خدیج ؓسے روایت ہےانھوں نے کہا کہ مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ پڑاؤ کیا۔ لوگوں کو سخت بھوک لگی۔ ادھرغنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ نبی کریم ﷺ لشکر کے پچھلے حصےمیں تھے۔ لوگوں نے جلدی جلدی ذبح کرکے گوشت کی ہنڈیاں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ کے حکم پر ان ہنڈیوں کو الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی۔ لوگ اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک صحابی نے اسے تیر مارا تو اللہ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہی رہ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان پالتو جانوروں میں بعض دفعہ جنگلی جانوروں کو طرح وحشت آجاتی ہے، اس لیے اگران میں سے کوئی قابو نہ آئے تو اس کے ساتھ یہی سلوک کرو۔“ راوی حدیث نے کہا کہ میرے دادا نے عرض کیا: ہمیں امید یا اندیشہ ہے کہ کل کہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3075]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ کا مطلب یہ تھا کہ کل پرسوں تک دشمن سے جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہے، اگر ہم تلواروں سے جانور ذبح کرنا شروع کردیں تو وہ کند ہوجائیں گی اور دشمن کے خلاف استعمال نہیں ہو سکیں گی اور چھریاں ہمارے پاس ہیں نہیں،اس لیے سر کنڈے سے ذبح کی اجازت دی جائے۔ چونکہ ذبح سے مقصد نجس خون بہانا ہے اور وہ سرکنڈے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شے بھی خون بہادے اس سے ذبح کرسکتے ہو،البتہ دانت ہڈی ہےاورہڈی جنوں کی خوراک ہے جو ذبح کرنے سے نجس ہوجائےگی اور ناخن سے حبشی لوگ ذبح کرتے ہیں اور حبشی لوگ اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہنڈیاں الٹا دینے کا حکم دیا کہ کیونکہ جن جانوروں کا گوشت پکایا جا رہا تھا انھیں رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بغیر تقسیم سے پہلے ہی ذبح کردیا گیاتھا،اس لیے آپ نے بطور یہ سزا حکم دیا۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مال ضائع کردیا جبکہ دوسری احادیث میں آپ نے مال ضائع کرنے سے روکا ہے؟ ان میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ عمومی حالات میں یہی حکم ہے کہ مال ضائع نہ کیا جائے تاہم کسی مصلحت یا تادیبی کاروائی کے طور پر ایسا کرنا جائز ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ اس کی تائید سنن نسائی میں مذکور حضرت حذیفہ ؓ کے واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ کسی گاؤں کا نمبردار چاندی کے برتن میں ان کےلیے پانی لایا تو انھوں نے وہ برتن پانی سمیت اسے دے مارا۔ (سنن نسائي، الزینة، حدیث: 5303)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3075