(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن علي بن الحسين ، عن عمرو بن عثمان ، عن اسامة بن زيد ، قال: قلت: يا رسول الله، اين تنزل غدا؟ وذلك في حجته، قال:" وهل ترك لنا عقيل منزلا؟"، ثم قال:" نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة، يعني المحصب، حيث قاسمت قريش على الكفر"، وذلك ان بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم، ان لا يناكحوهم ولا يبايعوهم، قال معمر، قال الزهري: والخيف الوادي. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا؟ وَذَلِكَ فِي حَجَّتِهِ، قَالَ:" وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا؟"، ثُمَّ قَالَ:" نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ، يَعْنِي الْمُحَصَّبَ، حَيْثُ قَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْكُفْرِ"، وَذَلِكَ أَنَّ بَنِي كِنَانَةَ حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ، أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ وَلَا يُبَايِعُوهُمْ، قَالَ مَعْمَرٌ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالْخَيْفُ الْوَادِي.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ یہ بات آپ کے حج کے دوران کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر باقی چھوڑا ہے“؟ ۱؎ پھر فرمایا: ”ہم کل «خیف بنی کنانہ» یعنی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی، اور وہ یہ تھی کہ بنی کنانہ نے قریش سے عہد کیا تھا کہ وہ بنی ہاشم سے نہ تو شادی بیاہ کریں گے اور نہ ان سے تجارتی لین دین“۲؎۔ زہری کہتے ہیں کہ «خیف» وادی کو کہتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ابوطالب کی ساری جائداد اور مکان عقیل نے بیچ کھائی، ایک مکان بھی باقی نہ رکھا کہ ہم اس میں اتریں جب علی اور جعفر رضی اللہ عنہما اور ابوطالب کے بیٹے مسلمان ہو گئے اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی تو عقیل اور طالب دو بھائی جو ابھی تک کافر تھے مکہ میں رہ گئے، اور ابوطالب کی کل جائداد انہوں نے لے لی، اور جعفر رضی اللہ عنہ کو اس میں سے کچھ حصہ نہ ملا کیونکہ وہ دونوں مسلمان ہو گئے اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ۲؎: یہ جگہ سیرت کی کتابوں میں شعب أبی طالب سے مشہور ہے، جہاں پر ابو طالب بنی ہاشم اور بنی مطلب کو لے کر چھپ گئے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے لیا تھا، اور قریش کے کافروں نے عہد نامہ لکھا تھا کہ ہم بنی ہاشم اور بنی مطلب سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ اور کوئی معاملہ، اور اس کا قصہ طویل ہے اور سیرت کی کتابوںمیں بالتفصیل مذکور ہے۔
هل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة المحصب حيث قاسمت قريش على الكفر وذلك أن بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم أن لا يبايعوهم ولا يؤووهم
هل ترك لنا عقيل منزلا نحن نازلون بخيف بني كنانة حيث تقاسمت قريش على الكفر يعني المحصب وذاك أن بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم أن لا يناكحوهم ولا يبايعوهم ولا يئووهم
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2942
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس واقعہ میں قبائل کے جس معاہدے کا ذکر ہے اسی کی وجہ سے بنو ہاشم کو تین سال تک شعب بنی ہاشم میں رہنا پڑا تھا جسے شعب ابی طالب بھی کہتے ہیں۔
(2) مزید فوائد کے لیے ملاحظہ کیجیے (حدیث: 2730)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2942
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2910
´کیا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے؟` اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی۔“ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2910]
فوائد ومسائل: فائدہ: ابو طالب کی وفات کے موقع پر عقیل اسلام نہ لائے تھے، اسی وجہ سے وہی اس کے وارث ہوئے۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لئے وہ اختلاف دین کی وجہ سے اپنے باپ کے وارث نہ بنے۔ اور عقیل جوں ہی عبد المطلب کی جایئداد کے مالک بنے۔ انہوں نے اس کو فروخت کر دیا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2910
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3296
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، اور انہوں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ان شاءاللہ آپ کل کہاں نزول فرمائیں گے؟ اور یہ فتح مکہ کی بات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3296]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مکہ مکرمہ کے مکانات اور زمینوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ان میں وراثت چلے گی، اوران کی خریدوفروخت اور ان کو کرایہ پر دینا جائز ہے یا نہیں، اس اختلاف کی دو وجوہ ہیں۔ 1۔ مکہ صلح سے فتح ہوا ہے یا جنگ اور قوت کے بل بوتے پر، اگر قوت وطاقت کے بل بوتے پر فتح ہوا ہے تو مکہ کے گھر مسلمانوں کے تھے، یا احسان کرتے ہوئے مکہ والوں کو دیے گئے۔ 2۔ اَلْمَسْجِدُ الْحَرَام: سے مراد، بیت اللہ ہے یا پوراحرم کا علاقہ، نیز: ﴿سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ﴾ اس میں مقیم اور باہر سے آنے والے برابر ہیں، سے مراد امن واحترام میں برابر ہر چیز میں برابر ہیں۔ اس وجہ سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح مکہ کے وقت بھی سوال کیا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ٹھہریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا عقیل نے بنوعبدالمطلب کے تمام مہاجر لوگوں کے مکانات فروخت کردیے ہیں، کیونکہ ابوطالب کی وفات کے وقت عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔ اس لیے وہ دونوں ہی وارث بنے تھے اور عقیل نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کیا تھا اور عبدالمطلب کا وارث ابوطالب بنا تھا، اور جاہلیت کے اصول کے مطابق بڑا بیٹا ہونے کے سبب عبدالمطلب کی تمام جائیداد اس کے پاس تھی، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کے گھر میں رہتے تھے۔ حج کے موقع پر حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خیال کیا شاید فتح مکہ کے بعد، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کو واپس لے لیا ہو گا۔ بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اوران کے ہم نوا حضرات کے نزدیک مکہ صلح سے فتح ہوا تھا۔ اس لیے اس کے مکانات مکہ کے باشندوں کی ملک میں رہے۔ اور ان کا حکم باقی شہروں کی طرح ہے ان میں ان کی وراثت جاری ہو گی اور ان کے لیے ان کا بیچنا، رہن رکھنا، کرایہ پردینا، ہبہ کرنا ان کے بارے میں وصیت کرنا اور باقی تمام تصرفات صحیح ہوں گے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ۔ اور بعض دوسرے فقہاء کے نزدیک مکہ بزور بازوفتح ہوا ہے، اس لیے یہ تمام تصرفات ناجائز ہوں گے۔ (صحیح مسلم ج1ص 436) ۔ لیکن درمختارمیں ہے: (وَجَازَ بَيْعَ بِنَاءِ بُيُوْتِ مَكَّةَ وَأَرْضَهَا بِلاَ كَرَاهَةٍ وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِي وَبِهِ يُفْتىٰ)(فتح الملھم 3/387) مکہ کی عمارات اور ان کی جگہ، بیچنا بلاکراہت جائز ہے۔ یہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے اور اس پر ہمارا فتوی ہے، صاحب لامع الداری نے صاحبین کا قول یہی قرار دیا ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ایک روایت یہی ہے: (لِاَنَّهَا عِنْدَنَا مَمْلُوْكَة ٌلِاَهْلِهَا) کیونکہ مکہ کے باشندوں کی ملکیت ہیں۔ (ج5، ص 173) ۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مکہ کی عمارات کے سلسلہ میں ہر قسم کا تصرف جائز ہے خواہ خرید وفروخت ہو یا ہبہ یا وراثت یا کرایہ پر دینا، لیکن اگر عمارت گر جائے تو محض خالی زمین کے سلسلہ میں کسی قسم کا تصرف درست نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3296
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3058
3058. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حجۃالوداع میں عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ کل کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا:” کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے؟“ پھر آپ نے فرمایا: ” کل ہم لوگ بنو کنانہ کی وادی میں پڑاؤ کریں گے، جس کووادی محصب کہا جاتا ہے، جہاں قریش نے کفر پر اڑے رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں۔“ اور یہ اس طرح کہ بنو کنانہ نے بنو ہاشم کے خلاف قریش سے قسم لی تھی کہ وہ بنو ہاشم سےخرید و فروخت نہیں کریں گے اور نہ انھیں رہنے کے لیے جگہ ہی دیں گے۔“ امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ خیف کے معنی وادی کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3058]
حدیث حاشیہ: ہوا یہ تھا کہ ابو طالب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کی وفات کے بعد جاہلیت کی رسم کے موافق کل ملک املاک پر ابو طالب نے قبضہ کر لیا۔ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو ان کے انتقال کے کچھ دن بعد آنحضرتﷺ اور حضرت على ؓ تو مدینہ منورہ ہجرت کر آئے‘ عقیل اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے‘ وہ مکہ میں رہے۔ انہوں نے تمام جائداد اور مکانات بیچ کر اس کا روپیہ خوب اڑایا۔ اس حدیث سے باب کا مطلب امام بخاری ؒنے اس طرح نکالا کہ آنحضرتﷺ نے مکہ فتح ہونے کے بعد بھی ان مکانوں اور جائداد کی بیع قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کر لی‘ تو جب عقیل کے تصرفات اسلام سے پہلے نافذ ہوئے تو اسلام کے بعد بطریق اولیٰ نافذ رہیں گے۔ وقال القرطبي یحتمل أن یکون مراد البخاري أن النبي صلی اللہ علیه وسلم من علی أهل مکة بأموالهم ودورهم من قبل أن یسلموا (فتح) یعنی شاید امام بخاری ؒ کی مراد یہ ہو کہ رسول کریمﷺ نے مکہ والوں پر ان کے اسلام سے پہلے ہی یہ احسان فرما دیا تھا کہ ان کے مال اور گھر ہر حالت میں ان کی ہی ملکیت تسلیم کر لئے‘ اس طرح عقیل ؓ کے لئے اپنے گھر سب پہلے ہی بخش دئیے تھے۔ (ﷺ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3058
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1588
1588. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے(حجۃ الوداع کو جاتے وقت) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اپنے مکہ و الے گھر میں کہاں نزول فرمائیں گے؟اس پر آپ نے فرمایا: ”عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائیداد یامکان کہاں چھوڑاہے؟“عقیل اور طالب تو ابو طالب کے وارث ٹھہرے۔ حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ ان کی کسی چیز کے وارث نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عقیل اور طالب (اس وقت) کافر تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر ؓ فرمایا کرتےتھے کہ کسی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ اس معاملے کے لیے لوگ ارشاد باری تعالیٰ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں: ”جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی ایک دو سرے کے وارث ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1588]
حدیث حاشیہ: مجاہد سے منقول ہے کہ مکہ تمام مباح ہے نہ وہاں کے گھروں کا بیچنا درست ہے نہ کرایہ پر دینا اور ابن عمر ؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ اور ثوری ؒ کا یہی مذہب ہے اور جمہور علماء کے نزدیک مکہ کے گھر مکان ملک ہیں اور مالک کے مرجانے کے بعد وہ وارثوں کے ملک ہوجاتے ہیں۔ امام ابویوسف ؒ (شاگرد امام ابوحنیفہ ؒ) کا بھی یہ قول ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ہاں خاص مسجد حرام میں سب مسلمانوں کا حق برابر ہے جو جہاں بیٹھ گیا اس کو وہاں سے کوئی اٹھا نہیں سکتا۔ اوپر کی آیت میں چونکہ عاکف اور معکوف کا مادہ ایک ہی ہے۔ اس لیے معکوف کی بھی تفسیر بیان کردی۔ حدیث باب میں عقیل کا ذکر ہے۔ سو ابو طالب کے چار بیٹے تھے۔ عقیل، طالب، جعفر اور علی۔ علی اور جعفر نے تو آنحضرت ﷺ کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ مدینہ آگئے مگر عقیل مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے ابوطالب کی ساری جائیداد کے وہ وارث ہوئے۔ انہوں نے اسے بیچ ڈالا۔ آنحضرت ﷺ نے اسی کا ذکر فرمایا تھا جو یہاں مذکور ہے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں عقیل مسلمان ہوگئے تھے۔ داؤدی نے کہا جو کوئی ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا جاتا اس کا عزیز جو مکہ میں رہتا وہ ساری جائداد دبالیتا۔ آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ابوطالب کے یہ مکانات عرصہ دراز بعد محمد بن یوسف، حجاج ظالم کے بھائی نے ایک لاکھ دینار میں خریدلیے تھے۔ اصل میں یہ جائداد ہاشم کی تھی، ان سے عبدالمطلب کو ملی۔ انہوں نے سب بیٹوں کو تقسیم کردی۔ اسی میں آنحضرت ﷺ کا حصہ بھی تھا۔ آیت مذکورئہ باب شروع اسلام میں مدینہ منورہ میں اتری تھی۔ اللہ پاک نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنا دیا تھا۔ بعد میں یہ آیت اتری: ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ﴾(الأنفال: 75) یعنی غیر آدمیوں کی نسبت رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔ خیر اس آیت سے مومنوں کا ایک دوسرے کا وارث ہونا نکلتا ہے۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مومن کافر کا وارث نہ ہوگا اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بعد ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا﴾(الأنفال: 72) یعنی جو لوگ ایمان بھی لے آئے مگر کافروں کے ملک سے ہجرت نہیں کی تو تم ان کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب ان کے وارث نہ ہوئے تو کافروں کے بطریق اولیٰ وارث نہ ہوں گے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1588
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1588
1588. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے(حجۃ الوداع کو جاتے وقت) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اپنے مکہ و الے گھر میں کہاں نزول فرمائیں گے؟اس پر آپ نے فرمایا: ”عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائیداد یامکان کہاں چھوڑاہے؟“عقیل اور طالب تو ابو طالب کے وارث ٹھہرے۔ حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ ان کی کسی چیز کے وارث نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عقیل اور طالب (اس وقت) کافر تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر ؓ فرمایا کرتےتھے کہ کسی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ اس معاملے کے لیے لوگ ارشاد باری تعالیٰ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں: ”جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی ایک دو سرے کے وارث ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1588]
حدیث حاشیہ: (1) مکہ مکرمہ کے مکانات میں وراثت چلتی ہے کیونکہ ان کے متعلق حق ملکیت ثابت ہے۔ سردار ابو طالب کے چار بیٹے تھے: عقیل، طالب، حضرت جعفر اور حضرت علی۔ مؤخر الذکر دونوں بیٹے مسلمان ہو گئے۔ طالب جنگ بدر میں مارا گیا۔ عقیل کو اپنے باپ ابو طالب کی تمام جائیداد مل گئی۔ چونکہ یہ جائیداد ہاشم کی تھی جو پہلے عبدالمطلب کو منتقل ہوئی، اس نے اپنے تمام بیٹوں میں تقسیم کر دی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے باپ عبداللہ کا بھی حصہ تھا، لیکن آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ لوگوں کے درمیان نفرت پیدا نہ ہو۔ آپ اپنے باپ کے حصے میں پڑاؤ کر سکتے تھے لیکن آپ اللہ کے لیے ہجرت کر کے گئے تھے، اس لیے وہاں پڑاؤ کرنا مناسب خیال نہ کیا بلکہ ہوا یوں کہ عقیل نے آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے مکان پر بھی قبضہ کر لیا تھا، پھر اسے فروخت کر دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”عقیل نے ہمارے لیے مکان چھوڑا کب ہے کہ ہم اس میں رہیں۔ “(2) بہرحال احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں میں لوگوں کا حق ملکیت قائم تھا۔ اس میں وراثت اور بیع و اجارہ کے معاملات بھی ہوتے تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے، چنانچہ سیدنا عمر ؓ کے زمانے میں نافع بن عبدالحارث نے صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے مکہ میں اس شرط پر خریدا کہ اگر سیدنا عمر ؓ اس خریداری کو منطور کریں گے تو بیع پختہ ہو گی، بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرائے کے مل جائیں گے۔ (صحیح البخاري، الخصومات، باب: 8)(3) امام بخاری ؒ عنوان اور پیش کردہ روایات سے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن میں مکہ مکرمہ کی عمارتوں کو فروخت کرنے یا انہیں کرائے پر دینے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري: 568/3) امام ابن خزیمہ ؒ لکھتے ہیں کہ اگر مسجد حرام کا اطلاق تمام حرم پر صحیح ہو تو حرم کے اندر کنواں کھودنا، قبر بنانا، بول و براز کرنا، تعلقات زن و شو قائم کرنا، مردار اور بدبودار چیزوں کو پھینکنا جائز نہ ہو۔ ہمارے علم کے مطابق کسی عالم نے حرم میں ان کاموں سے منع نہیں کیا اور نہ حائضہ اور جنبی کے لیے حدود حرم میں داخل ہونے پر پابندی لگائی ہے، نیز اگر ایسا ہو تو مکہ کے مکانات اور اس کی دوکانوں میں اعتکاف بیٹھنا بھی جائز ہو اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (فتح الباري: 569/3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں حضرت عمر ؓ سے بیان کیا ہے کہ مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہو سکتا، اسے آپ نے مرفوع حدیث کے طور پر بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6764)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1588
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3058
3058. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حجۃالوداع میں عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ کل کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا:” کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے؟“ پھر آپ نے فرمایا: ” کل ہم لوگ بنو کنانہ کی وادی میں پڑاؤ کریں گے، جس کووادی محصب کہا جاتا ہے، جہاں قریش نے کفر پر اڑے رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں۔“ اور یہ اس طرح کہ بنو کنانہ نے بنو ہاشم کے خلاف قریش سے قسم لی تھی کہ وہ بنو ہاشم سےخرید و فروخت نہیں کریں گے اور نہ انھیں رہنے کے لیے جگہ ہی دیں گے۔“ امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ خیف کے معنی وادی کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3058]
حدیث حاشیہ: 1۔ ابو طالب جناب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے تھےجاہلیت کی رسم کے مطابق عبدالمطلب کی وفات کے بعد ابو طالب ان کی تمام جائیداد کے مالک بن گئے۔ ابو طالب کے دوبیٹے حضرت جعفر ؓ اور حضرت علی ؓ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی جائیداد کے وارث نہ بن سکے۔ عقیل اور طالب کافر تھے ابو طالب کی وفات کے بعد وہ مسلمان بن گئے اسلام لانے سے پہلے انھوں نے تمام جائیداد اور مکانات فروخت کر کے خوب مزے اڑائے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد بھی ان مکانات اور جائیداد کی خرید فروخت قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کرلی۔ جب عقیل کے تصرفات اسلام سے پہلے نافذ ہوئے تو اسلام کے بعد بطریق اولیٰ نافذ رہیں گے۔ 2۔ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود ان حضرات کا رد کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ حربی اگر دارالحرب میں مسلمان ہو کر وہیں مقیم رہے اور مسلمان اس شہر کو فتح کر لیں تو وہ اپنے ہر قسم کے مال کا حق دار رہے گا۔ البتہ غیر منقولہ جائیداد مثلاً زمین اور مکانات وغیرہ مسلمانوں کے لیے مال فےبن جائیں گے جبکہ جمہور اس موقف کے خلاف ہیں۔ مذکورہ حدیث بھی جمہور کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3058