(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث ، عن يحيى بن سعيد ، عن ابن حبان هو محمد بن يحيى بن حبان ، عن انس بن مالك ، عن خالته ام حرام بنت ملحان ، انها قالت: نام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما قريبا مني ثم استيقظ يبتسم، فقلت: يا رسول الله، ما اضحكك؟ قال:" ناس من امتي عرضوا علي يركبون ظهر هذا البحر كالملوك على الاسرة"، قالت: فادع الله ان يجعلني منهم، قال: فدعا لها، ثم نام الثانية ففعل مثلها، ثم قالت مثل قولها، فاجابها مثل جوابه الاول، قالت: فادع الله ان يجعلني منهم، قال:" انت من الاولين"، قال: فخرجت مع زوجها عبادة بن الصامت غازية اول ما ركب المسلمون البحر مع معاوية بن ابي سفيان، فلما انصرفوا من غزاتهم قافلين فنزلوا الشام، فقربت إليها دابة لتركب، فصرعتها فماتت. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ حَبَّانَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ خَالَتِهِ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّي ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَبْتَسِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ:" نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ فَفَعَلَ مِثْلَهَا، ثُمَّ قَالَتْ مِثْلَ قَوْلِهَا، فَأَجَابَهَا مِثْلَ جَوَابِهِ الْأَوَّلِ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ"، قَالَ: فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِيَةً أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا مِنْ غَزَاتِهِمْ قَافِلِينَ فَنَزَلُوا الشَّامَ، فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْكَبَ، فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میرے قریب سوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اس سمندر کے اوپر اس طرح سوار ہو رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں“، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ سے آپ دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی لوگوں میں سے کر دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرما دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سو گئے، پھر ویسے ہی ہوا، آپ اٹھے تو ہنستے ہوئے، اور ام حرام رضی اللہ عنہا نے وہی پوچھا جو پہلی بار پوچھا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہی جواب دیا جو پہلی بار دیا تھا، اس بار بھی انہوں نے عرض کیا: آپ اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں میں سے ہو“۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جہاد کے لیے نکلیں، یہ پہلا موقع تھا کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ساتھ مسلمان بحری جہاد پر گئے تھے چنانچہ جب لوگ جہاد سے لوٹ رہے تھے تو شام میں رکے، ام حرام رضی اللہ عنہا کی سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا، جس نے انہیں گرا دیا، اور وہ فوت ہو گئیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے کئی معجزے مذکور ہیں: ایک تو اس بات کی پیش گوئی کہ اسلام کی ترقی ہو گی، دوسرے مسلمان سمندر میں جا کر جہاد کریں گے، تیسرے ام حرام رضی اللہ عنہا بھی ان مسلمانوں کے ساتھ ہوں گی اور اس وقت تک زندہ رہیں گی، چوتھے پھر ام حرام رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو جائے گا اور دوسرے لشکر میں شریک نہیں ہو سکیں گی، یہ سب باتیں جو آپ ﷺ نے فرمائی تھیں پوری ہوئیں، اور یہ آپ ﷺ کی نبوت کی کھلی دلیلیں ہیں جو شخص نبی نہ ہو وہ ایسی صحیح پیشین گوئیاں نہیں کر سکتا، سب قوموں سے پہلے عرب کے مسلمانوں نے ہی سمندر میں بڑے بڑے سفر شروع کئے اور علم جہاز رانی میں وہ ساری قوموں کے استاد بن گئے، مگر افسوس ہے کہ گردش زمانہ سے اب یہ حال ہو گیا کہ عرب تمام علوم میں دوسر ی قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں، اور جو لوگ جاہل اور کم علم تھے یعنی یورپ کے لوگ وہ تمام جہاں کے لوگوں سے دنیاوی علوم و فنون میں سبقت لے گئے ہیں: «وتلك الأيام نداولها بين الناس»(سورة آل عمران: 140) اب بھی اگر مسلمانوں کی ترقی منظور ہے تو عربوں میں علوم اور فنون پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے، اور ان کو تمام جنگی علوم و فنون کی تعلیم دینا چاہئے، جب عرب پھر علوم میں ماہر ہو جائیں گے تو دنیا کی تمام اقوام کو ہلاکر رکھ دیں گے، یہ شرف اللہ تعالی نے صرف عربوں ہی کو دیا ہے۔ واضح رہے کہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا انس بن مالک کی خالہ ہیں، ان کی شادی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی جن کے ساتھ وہ اس جہاد میں شریک ہوئیں اور سمندر کا سفر کیا بعد میں ایک جانور کی سواری سے گر کر انتقال ہوا اور قبرص میں دفن ہوئیں، یہ جنگ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سن ۲۷ ہجری میں واقع ہوئی،ابوذر اور ابوالدرداء وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جنگ میں شریک تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ فاختہ بنت قرظہ رضی اللہ عنہا بھی اس جنگ میں شریک تھیں۔
قوم من أمتي يركبون البحر كالملوك على الأسرة فقلت يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم فقال أنت منهم ثم نام فاستيقظ وهو يضحك فقال مثل ذلك مرتين أو ثلاثا قلت يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم فيقول أنت من الأولين فتزوج بها عبادة بن الصامت فخرج بها إلى ال
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2776
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری فوج حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تیار کی۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور تھا۔ جس لشکر میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہ شریک ہوئیں یہ پہلی بحری مہم تھی جو 28 ھ میں پیش آئی۔ (فتح الباري، الجهاد، باب غزوة المراة في البحر: 94/2)
(2) کسی فضیلت کے حصول کے لیے دعا کرنا یا کروانا درست ہے۔
(3) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کا پورا ہونا آپ کی حقانیت کی دلیل ہے۔
(4) عورت جہاد میں اپنے محرم یا شوہر کے ساتھ شریک ہوسکتی ہے۔
(5) حادثاتی موت بھی شہادت ہے۔
(6) بحری جنگ میں شریک ہونے والوں کی تعریف سے ان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ فضائیہ بھی ایک لحاظ سے بحری فوج کے مشابہ ہے۔ بلکہ بعض لحاظ سے اس سے برتر ہے اس لیے یہ فضیلت بحریہ کے ساتھ ساتھ فضائیہ کے لیے بھی ہے تاہم بری فوج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2776
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3174
´سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری (جہاز) پر سوار تھے، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں“، میں نے کہا: اللہ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3174]
اردو حاشہ: (1)”نکاح کرلیا“ گویا اس خواب کے وقت وہ ان کے نکاح میں نہیں تھیں۔ نکاح بعد میں ہوا۔ اور اس غزوے میں وہ اپنے خاوند عبادہ بن صامتb کے ساتھ ہی گئیں تھیں‘ اس لیے سابقہ حدیث کے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے۔ (2)”سمندر سے نکلیں“ ان کی قبر مبارک جزیرئہ قبرص میں ہے۔ گویا جب وہ اس جزیرے میں پہنچ کر سمندر سے نکلیں تو یہ حادثہ پیش آیا۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہَا۔(3) ان کا لشکر کے ساتھ جانا اپنے خاوند محترم اور زخمی مجاہدین کی خدمت کے لیے تھا نہ کہ لڑائی میں حصہ لینے کے لیے کیونکہ عورتوں کے لیے لڑائی میں شامل ہونا‘ پردہ نہ رہنے کی وجہ سے جائز نہیں‘ نیز کفار کے قبضے میں آنے کا خطرہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3174
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2490
´سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی بہن ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں قیلولہ کیا، پھر بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: ”میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، فرمایا: ”تو انہیں میں سے ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2490]
فوائد ومسائل: 1۔ یہ حدیث صریح اور واضح طور پر دلائل نبوت میں سے ہے۔ کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپﷺ کی وفات کے بعد وقوع پزیر ہوئی۔ جس کو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی اور نہیں جان سکتا۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اس کا علم ہوا۔ 2۔ یہ سن 28 ہجری حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی بات ہے۔ جبکہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جہادی سفر کے امیرتھے۔ لہذا اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ومنقبت بھی ثابت ہوئی۔ نیز ان صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی بھی جنہوں نے ان کی معیت میں یہ سمندری سفرکیاتھا۔ یہ ایک جہادی سفر تھا۔
3۔ کسی خوش کن اور پسندیدہ بات پر ہنسنا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2490
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2493
´سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔` ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جہاد یا حج کے لیے) سمندر میں سوار ہونے سے جس کا سر گھومے اور اسے قے آئے تو اس کے لیے ایک شہید کا ثواب ہے، اور جو ڈوب جائے تو اس کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2493]
فوائد ومسائل: اس سے مراد جہاد یا حج وعمرے کا سفر ہے۔ دیگر سمندری سفر جو اطاعت کے سفر ہوں ان میں بھی اس فضیلت کی توقع کی جانی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2493
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:352
352- سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحری جنگ کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا: ”اس میں جس شخص کا سر چکرائے گا سے بھی شہید کا اجر ملے گا اور جو شخص ڈوب جائے گا اسے دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔“ وہ خاتون بیان کرتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! تو اسے بھی ان میں شامل کردے۔ وہ خاتون بحری جنگ میں شریک ہوئیں جب وہاں سے باہر آئیں، تو سواری پر سوار ہوئیں، تو اس سے گر کر فوت ہوگئیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:352]
فائدہ: شہادت کے مختلف درجات ہیں، سب سے افضل ترین شہید وہ ہے جو معرکہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اس کے علاوہ حدیث میں مختلف بیماریوں سے فوت ہونے والے کو بھی شہید کہا: گیا ہے، نیز اس حدیث سے سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 352
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2895
2895. حضرت انس ؓسے روایت ہے، ان سے ام حرام ؓنے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن ان کے گھرتشریف لا کر قیلولہ فرمایا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ کس بات پر مسکرارہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت سے ایسے لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی جو جہاد کے لیے سمندر میں اس طرح جارہےتھے جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔“ میں نےعرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ!اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم بھی ان میں سے ہو۔“ اس کے بعد پھر آپ سوگئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ آپ نے اس مرتبہ بھی وہی بات بتائی۔ ایسا دو یا تین مرتبہ ہوا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں کے ساتھ ہوگی۔“ چنانچہ انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت ؓسے نکاح کیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2895]
حدیث حاشیہ: یہ حدیث اور اس پر نوٹ پیچھے لکھا جا چکا ہے یہاں مرحوم اقبال کا یہ شعر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2895
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2800
2800 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2800]
حدیث حاشیہ: انبیاء ؑ کے خواب وحی اور الہام ہی ہوتے ہیں۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی امت کے کچھ لوگ بڑی شان اور شوکت کے ساتھ بادشاہوں کی طرح سمندر پر سوار ہو رہے ہیں۔ آخر آپؐ کا یہ خواب پورا ہوا اور مسلمانوں نے عہد معاویہؓ میں بحری بیڑہ تیار کرکے شام پر حملہ کیا‘ ترجمہ باب اس طرح نکلا کہ ام حرام جانور سے اگرچہ گر کر مریں مگر آنحضرتؐ نے ان کو مجاہدین میں شامل فرمایا اور أنت من الأولین سے آپ نے پیش گوئی فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2800
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2800
2800 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2800]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرات انبیاء ؑ کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ اس امت کے کچھ لوگ بڑی شان وشوکت کے ساتھ بادشاہوں کی طرح سمندر پر سوار ہورہے ہیں، آخر آپ کا یہ خواب پورا ہوا۔ 2۔ حضرت عثمان ؓ کے عہدخلافت میں رومیوں سے جنگ لڑی گئی تھی۔ انھوں نے اس جنگ میں حضرت امیر معاویہ ؓ کو سپہ سالار بنایا۔ انھوں نے بحری بیڑا تیار کرکے شام پرحملہ کیا۔ حضرت ام حرام ؓ بھی ان کے ہمراہ تھیں جس میں وہ سوار ہوتے وقت گرکرفوت ہوگئیں۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس سے مسئلہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ وہ گرکرفوت ہوئی تھیں،تاہم رسول اللہ ﷺ نے انھیں مجاہدین میں شامل فرمایا جیساکہ آپ نے پیش گوئی میں فرمایا تھاکہ تو پہلے لوگوں سے ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2800
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2895
2895. حضرت انس ؓسے روایت ہے، ان سے ام حرام ؓنے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن ان کے گھرتشریف لا کر قیلولہ فرمایا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ کس بات پر مسکرارہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت سے ایسے لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی جو جہاد کے لیے سمندر میں اس طرح جارہےتھے جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔“ میں نےعرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ!اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم بھی ان میں سے ہو۔“ اس کے بعد پھر آپ سوگئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ آپ نے اس مرتبہ بھی وہی بات بتائی۔ ایسا دو یا تین مرتبہ ہوا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں کے ساتھ ہوگی۔“ چنانچہ انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت ؓسے نکاح کیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2895]
حدیث حاشیہ: ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ”جو انسان سمندر میں طغیانی کے وقت سفر کرے تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ ۔ اگر اسے نقصان ہوتو خود کو ملامت کرے۔ “(مسند أحمد271/5 و سلسلة الأحادیث الصحیحة: 472/2، حدیث 828) اس حدیث کے پیش نظر بعض اہل علم نے سمندری سفر کو جائز قرارنہیں دیا۔ امام مالک ؒنے عورت کے لیے مطلق طور پر سمندر میں سفرکرنا ناجائز کہا ہے، حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ﴾”وہی ذات ہے جو تمھیں خشکی اور سمندر میں سفرکرنے کی توفیق دیتی ہے۔ “(یونس: 22/10) امام بخاری ؒنےاس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جہاد کےلیے سمندر میں سفر کرنا جائز ہے اور اس میں مردوں اور عورتوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس طرح حج کے لیے بھی مردوں اور عورتوں کاسمندری سفر جائز ہے۔ دونوں روایات میں تطبیق یوں ہوگی کہ منع اس صورت میں ہے جب سمندر میں طغیانی ہویا بلاوجہ سفر ہو۔ جہاد کے لیے یا تجارتی مقاصد کے لیے سفر جائز ہوگا۔ اس حدیث میں صراحت ہے کہ ام حرام ؓنے جہاد کے لیے سمندری سفر کیا۔ یہ سفر حضرت عثمان ؓکے دور حکومت میں ہوا جب مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کی کمان میں روم پرحملہ کرکے اسے فتح کیا۔ ۔ ۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین۔ ۔ ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2895