ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضرورت سے زائد پانی سے اور کنوئیں میں بچے ہوئے پانی سے کسی کو نہ روکا جائے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ کنویں سے پانی نکالنے میں اپنا نقصان نہیں اور دوسرے کا فائدہ ہے، اور اس سے کنویں کا پانی زیادہ صاف اور عمدہ ہو جاتا ہے اور اس میں اور تازہ پانی بھر آتا ہے، اور بعضوں نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ جو پانی اپنی ضرورت سے زیادہ ہو اس کا بیچنا منع ہے جب کوئی اس کو پینا چاہے یا اپنے جانوروں کو پلانا چاہے لیکن اگر باغ یا درختوں کو سینچنا چاہے تو اس کا بیچنا درست ہے، اور کنویں کا پانی بھی روکنا درست نہیں ہے اس سے جو اس کو پینا چاہے یا اپنے جانوروں کو پلانا چاہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17886، ومصباح الزجاجة: 872)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/252، 268) (صحیح)» (سند میں حارثہ بن أبی الرجال ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2479
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر کوئی شخص ایسی جگہ کنواں کھودے جو کسی کی ملکیت نہیں تووہ اس کنویں کا اورایک حد تک اس کے قریب کی زمین کا مالک ہو جاتا ہے تاہم اسے دوسروں کا اس پانی سےاستفادہ کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔
(2) اس زمین کے قریب اگر گھاس وغیرہ اگی ہوئی ہو اور وہاں لوگوں کےجانور چرتے ہوں تو وہ جانور پانی پینے اس کنویں پرآئیں گے اسے ان جانوروں کو پانی پینے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔
(3) جانوروں کو پانی پینے سے روکنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس طرح وہ جانور دوسرے مقام پرچریں گے اوریہاں کی گھاس اس کے جانوروں کےکام آئے گی۔ یہ خود غرضی ہے اور مسلمانوں کی مشترک گھاس پرقبضہ کرنے کا حیلہ ہے اس لیے منع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2479