ابوالحسن مولی بنی نوفل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس غلام کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو دو طلاق دے دی ہو پھر دونوں آزاد ہو جائیں، کیا وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں، کر سکتا ہے، ان سے پوچھا گیا: یہ فیصلہ کس کا ہے؟ تو وہ بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کیا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوالحسن نے یہ حدیث روایت کر کے گویا ایک بڑا پتھر اپنی گردن پہ اٹھا لیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 6 (2187، 2188)، سنن النسائی/الطلاق 19 (3457، 3428)، (تحفة الأشراف: 6561)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/229، 334) (ضعیف)» (عمر بن معتب ضعیف راوی ہیں)
lt was narrated that Abul Hasan, the freed slave of Banu Nawfal, said:
"Ibn 'Abbas was asked about a slave who divorces his wife twice, then (they are freed). Can he marry her? He said: 'Yes.' It was said to him: 'On what basis?' He said: 'The Messenger of Allah (ﷺ) passed such a judgement .' " (D a' if)
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2187) نسائي (3457،3458( انوار الصحيفه، صفحه نمبر 453
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2082
اردو حاشہ: فائدہ: چٹان اٹھانےکا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے یہ روایت کر کے اپنےسر پر بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا لیا ہے۔ یہ روایت ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2082
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3457
´غلام کے طلاق دینے کا بیان۔` ابوالحسن مولیٰ بنی نوفل کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں غلام تھے، میں نے اسے دو طلاقیں دے دی، پھر ہم دونوں اکٹھے ہی آزاد کر دیے گئے۔ میں نے ابن عباس سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا: اگر تم اس سے رجوع کر لو تو وہ تمہارے پاس رہے گی اور تمہیں ایک طلاق کا حق حاصل رہے گا، یہی فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ معمر نے اس کے خلاف ذکر کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3457]
اردو حاشہ: (1) یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں موجود ہے۔ متن میں مخالفت تو واضح ہے‘ سند میں مخالفت یہ ہے کہ معمر نے عن الحسن مولیٰ بنی نوفل کہا ہے جو کہ وہم ہے۔ صحیح ابو الحسن مولیٰ بنی نوفل ہے جیسا کہ علی بن مبارک کی سابقہ راویت میں ہے۔ (2) مذکورہ وہم کی نسبت معمر کی طرف کرنا محل نظر ہے۔ امام مزی رحمہ اللہ تحفۃ الاشراف میں لکھتے ہیں: ”اس وہم کی نسبت معمر یا ان کے شاگرد عبدالرزاق کی طرف کرنا محل نظر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل اور محمد بن عبدالملک بن زنجویہ اور دیگر کئی لوگ اس راویت کو عن عبدالرزاق عن معمر کی سند سے بیان کرتے ہیں لیکن ان تمام نے عن ابی الحسن ہی کہا ہے۔ (جو کہ صحیح ہے صرف نسائی میں عن الحسن ہے‘ لہٰذا یہ سہو یا توخود امام نسائی رحمہ اللہ کو لگا ہے یا ان کے استاد محمد بن رافع کو۔) واللہ أعلم۔ دیکھیے: (تحفة الأشراف بمعرفة الاأطراف: 5/274) یعنی معمر کی راویت بھی علی بن مبارک کی طرح عن ابی الحسن ہی ہے۔ معمر نے علی بن مبارک کی مخالفت نہیں کی اور مصنف رحمہ اللہ کا ان کے وہم کی طرف اشارہ درست نہیں بلکہ وہم کسی اور کو لگا ہے‘ امام نسائی رحمہ اللہ کو یا ان کے استاد محمد بن رافع کو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 28/337،338) (3) آزاد مرد کو تین طلاقوں کا اختیار ہے مگر غلام کو دو طلاقوں کا۔ راوئ حدیث کا حق بھی حاصل ہوگیا‘ لہٰذا وہ رجوع کرسکتے تھے۔ اور اگر عدت گزر چکی ہو تو وہ نیا نکاح بھی کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے دو طلاقیں اکٹھی دی ہوں۔ اس صورت میں وہ ایک کے قائم مقام تھیں اور انہیں رجوع کا حق حاصل تھا۔ پھر معنیٰ ہوں گے‘ ”اگر تو اس سے رجوع کرے تو وہ تیرے پاس آجائے گی اور اسے ایک طلاق پڑ گئی۔“ واللہ أعلم۔ ویسے یہ اور اگلی دونوں روایات ضعیف ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3457