ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایلاء کیا، اور اپنے اوپر حلال کو حرام ٹھہرا لیا ۱؎ اور قسم کا کفارہ ادا کیا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ماریہ قبطیہ کو یا شہد کو۔ ۲؎: مطلب یہ ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لے تو طلاق نہ پڑے گی، بلکہ قسم کا کفارہ دینا ہو گا، قسم کا کفارہ قرآن مجید میں مذکور ہے، دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک مومن غلام آزاد کرنا، اور اگر ان تینوں میں سے کوئی چیز بھی میسر نہ ہو تو تین دن کا روزہ رکھنا۔
It was narrated that 'Aishah said:
"The Messenger of Allah swore to keep away from his wives and declared them as unlawful for him, so he made something permissible forbidden, and he offered expiation for having sworn to do so."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1201) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 453
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2072
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ روایت سنداً تو ضعیف ہے، تاہم اس میں بیان کردہ دونوں ہی باتیں دوسری روایات سے ثابت ہیں۔ رسول اللہﷺ نے” ایلاء“ بھی کیا اور 29 دن تک آپ بیویوں سےعلیحدہ رہے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر آپﷺ نے شہد اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ یہ الگ الگ واقعے ہیں، راوی نے ان کو ایک جگہ جمع کردیا جو غلط ہے۔
(2) ” ایلاء“ کے مسائل کے لیے دیکھئے: (حدیث: 2059۔ 2061، کتاب الطلاق، باب: 24) ۔
(3) شہد کے واقعہ کی طرف سورۃ تحریم کی پہلی آیت میں اشارہ ہے۔ صحیحین میں مذکورہے کہ حضرت عائشہ اورحضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے چاہا کہ رسول اللہﷺ ان کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہریں اور حضرت زینت رضی اللہ عنہا کے ہاں کم ٹھہریں، اس لیے اپنی باری پر دونوں نےکہا کہ رسول اللہﷺ کے دہن مبارک سے مغافیر کے درخت (کے پھول یا گوند) کی بومحسوس ہوتی ہے۔ نبیﷺنے فرمایا کہ میں نےایسی کوئی چیز تو نہیں کھائی، شہد پیا تھا، ممکن ہے شہد کی مکھیوں نے مغافیر کے پھولوں سے رس چوسا ہو۔ اور قسم کھا لی کہ آئندہ وہ شہد نہیں پئیں گے۔ اس پر سورۃ تحریم کی آیات نازل ہوئیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، سورۃ التحریم، باب: 1، حدیث: 4912) ۔
(4) قسم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿فَكَفّـرَتُهُ إِطعامُ عَشَرَةِ مَسـكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحريرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـثَةِ أَيّامٍ﴾(المائدہ5؍89) ”اس کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا ہے اوسط درجے کا جو تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہنانا ہے، یا ایک غلام یا ایک لونڈی آزاد کرنا ہے اور جواس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔“
(5) سورۃ تحریم کی پہلی آیت میں حلال کو حرام قراردینے کی ممانعت ہے اور اس کے فوراً بعد دوسری آیت میں ارشاد ہے: ﴿ قَد فَرَضَ اللَّهُ لَكُم تَحِلَّةَ أَيمٰـنِكُم﴾”اللہ تعالی نے تمہارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے۔“ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا بھی ایک طرح کی قسم ہے، اس لیے اس صورت میں بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے، البتہ امام شوکانی کے نزدیک صرف عورت کو حرام کرلینے کی صورت میں کفارہ ادا کرنا ضروری ہے، کسی اور چیز کو حرام کرلینے کی صورت میں کفارہ واجب نہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے بھی تفسیر احسن البیان میں امام شوکانی کے قول کو ترجیح دی ہے۔ دیکھئے: (تفسیر احسن البیان، سورۃ مائدہ، آیت: 87)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2072