عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو «مستعار»(مانگے ہوئے) بکرے کے بارے میں نہ بتاؤں“؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ضرور بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے دونوں پر لعنت کی ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس باب میں «إقامة الدليل على إبطال التحليل» نامی کتاب تصنیف فرمائی ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: نکاح حلالہ کسی ملت میں مباح نہیں ہوا، اور نہ اسے کسی صحابی نے کیا اور نہ اس کا فتوی دیا، افسوس ہے اس زمانہ میں لوگ حلالہ کا نکاح کرتے ہیں، اور وہ عورت جو حلالہ کراتی ہے گویا دو آدمیوں سے زنا کراتی ہے، ایک حلالہ کرنے والے سے، دوسرے پھر اپنے پہلے شوہر سے، اللہ تعالی اس آفت سے پناہ میں رکھے۔ آمین
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9968، ومصباح الزجاجة: 690) (حسن)» (ابو مصعب میں کلام ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 6/ 309- 310)
'Uqbah bin 'Amir narrated:
that the Messenger of said: 'Shall I not tell you of a borrowed billy goat.” They said: “Yes, O Messenger of!” He said: “He is Muhallil. May curse the Muhallil and the Muhallal lahu.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1936
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر ایک عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں اور اس کا خاوند اس سے پھر رجوع کرنا چاہے تو یہ اس کے لیے جائز نہیں۔ اس وقت اگر کوئی دوسرا مرد اس عورت سے نکاح کر لے اور اس کا مقصد اس کے ساتھ باقاعدہ ازدواجی زندگی گزارنا نہ ہو بلکہ محض یہ مقصد ہو کہ نکاح اور خلوت کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا تاکہ پہلا خاوند اس سے نئےسرے سے نکاح کر سکے، اور جو کام اس کے لیے حرام تھا، وہ حلال ہو جائے۔ اس عارضی نکاح کو حلالہ کہتے ہیں جسے اس حدیث میں لعنتی فعل قرار دیا گیا ہے۔
(2) شریعت میں نیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ارشاد نبوی ہے: «إِنَّمَا الْأَعْمْالُ بِالنِّیَّات»(صحیح البخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي الي رسول اللہ ﷺ ....حدیث: 1) ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔“ چونکہ نکاح حلالہ کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شرعی نکاح میں مطلوب ہے، اس لیے شرعی طور پر یہ نکاح ہی نہیں ہے بلکہ ایک حیلہ ہے اور یہ حیلہ بہت بڑا گنا ہے۔ لعنت سے حلالہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ جائز کام پر لعنت نہیں ہو سکتی۔ حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دینے سے اس عمل کی شناعت کی طرف اشارہ ہے۔ جس طرح جانوروں کی نسل کشی کے لیے سانڈ لیا جاتا ہے تاکہ وہ جفتی کر کے مونث جانوروں کو حاملہ کر دے، پھر وہ اس کے مالک کو واپس کر دیا جائے۔ اسی طرح حلالہ کرنے والے کو حلالہ کرانے والا وقتی طور پر عورت سے تعلق قائم کرنے کی درخواست کرتا ہے تاکہ وہ خلوت کے بعد اسے طلاق دے کر پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے۔ جس طرح سانڈ کرائے پر لینے والے کی ملکیت نہیں بن جاتا، اسی طرح حلالہ کرنے والا عورت سے مستقل تعلق قائم نہیں کرتا بلکہ اپنے خیال میں خاوند کی ضرورت پوری کرکے عورت سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ شیعوں کے ہاں رائج متعہ کی طرح ناجائز تعلق کی ایک صورت ہے، جس کو ”نکاح“ کا نام دے کر جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1936