(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي الحسين اسمه خالد المدني ، قال: كنا بالمدينة يوم عاشوراء، والجواري يضربن بالدف، ويتغنين فدخلنا على الربيع بنت معوذ ، فذكرنا ذلك لها، فقالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم صبيحة عرسي، وعندي جاريتان تتغنيان، وتندبان آبائي الذين قتلوا يوم بدر، وتقولان فيما تقولان: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال:" اما هذا فلا تقولوه ما يعلم ما في غد إلا الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي الْحُسَيْنِ اسْمُهُ خَالِدٌ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَالْجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، وَيَتَغَنَّيْنَ فَدَخَلْنَا عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تَتَغَنَّيَانِ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، وَتَقُولَانِ فِيمَا تَقُولَانِ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ:" أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ".
ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی: «وفينا نبي يعلم ما في غد»”ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا“۔
It was narrated that Abu Husain, whose name was Khalid Al-Madani, said:
“We were in Al-Madinah on the Say of 'Ashura and the girls were beating the Daff and singing. We entered upon Rubai' bint Mu'awwidh and mentioned that to her. She said: 'The Messenger of Allah entered upon me on the morning of my wedding, and there were two girls with me who were singing and mentioning the qualities of my forefathers who were killed on the Day of Badr. One of the things they were saying was: “Among us there is a Prophet who knows what will happen tomorrow.” He said: “Do not say this, for no one knows what will happen tomorrow except Allah.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1897
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عاشورا دس محرم کو کہتے ہیں۔ اس دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی اور کافر سمندر میں ڈوب مرے تھے، اس لیے اس دن یہودی خوشی مناتے اور شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 1734) رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ممکن ہے خوشی کا اظہار بھی کیا ہو۔ بعد میں عاشورا کے روزے کا وجوب منسوخ ہو گیا اور خوشی کے لیے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن مقرر ہو گئے۔ اب ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ عاشورا کا روزہ رکھیں اور اس کے ساتھ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھیں تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ رہے۔
(2) حضرت ربیع کی شادی کا واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو گا اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ ورنہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابیات رضی اللہ عنہن رسول اللہ ﷺ سے بھی پردہ کرتی تھیں۔ نبی ﷺ ان سے بیعت بھی پردے کے پیچھے سے زبانی اقرار کے ساتھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الشروط، باب ما یجوز من الشروط فی الإسلام والأحکام والمبایعة، حدیث: 2713)
(3) شادی کے موقع پر چھوٹی بچیوں کا گیت گانا اور دف بجانا جائز ہے۔
(4) بزرگوں کو چاہیے کہ خوشی کے موقع پر بچوں اور بچیوں کو جائز حد تک تفریحی مشاغل کی اجازت دیں لیکن جب بچے کوئی ناجائز کام کرنے لگیں تو انہیں توجہ دلائیں کہ یہ درست نہیں۔
(5) رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور نعت گوئی ایک مبارک عمل ہے لیکن غلو جائز نہیں۔ بزرگوں کی وہ صفات بیان کرنا جائز ہیں جو ان میں واقعتا موجود ہوں۔ مبالغے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(6) نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1897
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4922
´گانے کا بیان۔` ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس صبح آئے، جس رات میرا شب زفاف ہوا تھا تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم (خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو، پھر (انصار کی) کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوہ بدر کی شہید ہونے والے آباء و اجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4922]
فوائد ومسائل: 1) بچیوں کو انکی خانہ آبادی پر مبارکباد دینے جانا مستحب عمل ہے۔
2) ایسی خوشیوں کے مواقع پر چھوٹی نابالغ بچیوں کا دف بجانا جائز اور مستحب ہے تا کہ نکاح اور شادی کا اعلان ہو۔
3) آلاتِ مو سیقی میں سےصرف دف ہی ایک ایسا آلہ ہے جو شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہے اور یہ خود ساختہ سادہ سی ڈھولک ہوتی ہے جس کی ایک جانب کھلی ہوتی ہے۔
4) اسلاف مسلمین کے کارناموں کا ذکر کرنا ممدوح ہے۔
5) شادمانی کا موقع ہو یا کسی غمی کا ایسی بات کہنا یا کرنا جو شرعی اُصول و قواعد کے خلاف ہو ناجائز ہے۔
6) رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ کہ آپ علمِ غیب جانتے تھے غلط عقیدہ ہے نبی ﷺ نے اس کی تصدیق و تائید نہیں فرمائی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4922
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4001
4001. حضرت خالد بن ذکوان سے روایت ہے، وہ ربیع بنت معوذ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میری شب زفاف کی صبح کو میرے پاس نبی ﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح تم بیٹھے ہو۔ کچھ بچیاں اس وقت دف بجا رہی تھیں اور میرے ان آباء و اجداد کے اوصاف گا رہی تھیں جو غزوہ بدر میں شہید ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک بچی گاتے گاتے کہنے لگی: ہم میں ہے ایک نبی جو جانتا ہے کل کی بات۔ اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس طرح نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح پہلے کہہ رہی تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4001]
حدیث حاشیہ: اس شعر سے آنحضرت ﷺ کا عالم الغیب ہونا ظاہر ہو رہا تھا حالانکہ عالم الغیب صرف اللہ تعالی ہی ہے اسی لیے آنحضرت ﷺ نے اس شعر کے گانے سے منع فرمایا جو لوگ آنحضرت ﷺ کو عالم الغیب جانتے ہیں وہ سراسر جھوٹے ہیں۔ یہ محبت نہیں بلکہ آپ ﷺ سے عداوت رکھنا ہے کہ آپ کی حدیث کو جھٹلایا جائے۔ قرآن کو جھٹلایا جائے۔ حدیث میں شہدائے بدر کا ذکر ہے۔ باب اور حدیث میں یہی مناسبت ہے۔ حدیث سے نعتیہ اشعار کا سنانا بھی جائز ثابت ہوا بشرطیکہ ان میں مبالغہ نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4001
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5147
5147. سیدنا خالد بن ذکوان سے روایت ہے وہ سیدنا ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب میری رخصتی ہوئی تو نبی ﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے۔ اس دوران میں ہماری چھوٹی چھوٹی بچیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور میرے آباء و اجداد جو غزوہ بدر میں شہید ہو چکے تھے ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ ان میں سے ایک بچی نے اچانک کہہ دیا: ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتوں کی خبر رکھتا ہے جو آئیندہ کل آنے والی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کہنا چھوڑ دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5147]
حدیث حاشیہ: اس لڑکی کو آپ نے ایسا شعر پڑھنے سے منع فرما دیا کیونکہ آپ عالم الغیب نہیں تھے عالم الغیب صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ قرآن پاک میں صاف اس کی صراحت مذکور ہے۔ مرقاۃ میں ہے کہ وہ دف جو بجارہی تھیں ان میں گھنگروں جیسی آواز نہیں تھی و کان و لھن غیر مصحوب بجلاجل اس سے آج کل کے گانے بجانے پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گانوں بجانوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ایسے تمام گانوں بجانوں کو مٹانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے صلی اللہ علیہ وسلم، قال في الفتح و إنما أنکر علیها ما ذکر من الإطراءحیث أطلق علم الغیب به و ھي صفة تختص باللہ تعالیٰ یعنی آپ نے اس لڑکی کو اس شعر کے پڑھنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں مبالغہ تھا اور علم الغیب کا اطلاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیا گیا تھا حالانکہ یہ ایسی صفت ہے جو اللہ کے ساتھ خاص ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5147
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4001
4001. حضرت خالد بن ذکوان سے روایت ہے، وہ ربیع بنت معوذ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میری شب زفاف کی صبح کو میرے پاس نبی ﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح تم بیٹھے ہو۔ کچھ بچیاں اس وقت دف بجا رہی تھیں اور میرے ان آباء و اجداد کے اوصاف گا رہی تھیں جو غزوہ بدر میں شہید ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک بچی گاتے گاتے کہنے لگی: ہم میں ہے ایک نبی جو جانتا ہے کل کی بات۔ اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس طرح نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح پہلے کہہ رہی تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4001]
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ بدر میں حضرت بیع ؓ کے والد حضرت معوذ ؓ ان کے چچا عوف یا معاذ دونوں شہید ہو گئے تھے انصار کی بچیاں دف بجا کر ان کی بہادری کے کار نامے گارہی تھیں تاکہ سننے والوں میں جوش و جذبہ پیدا ہو۔ عنوان سے یہی مناسبت ہے۔ 2۔ اس حدیث سے خوشی کے موقع پر دف بجانے اور ترانے گانے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ بشرطیکہ گانے والی معروف گلو کارہ نہ ہو بلکہ چھوٹی بچیاں ہوں اور ایسے اشعار پڑھے جائیں جو بہادری اور شجاعت پر مشتمل ہوں۔ یہ یادرہے کہ عشقیہ غزلیات اور خلاف شریعت مضامین گانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے چونکہ ایک شعر سے رسول اللہ ﷺ کا عالم غیب ہونا ظاہر ہو رہا تھا اس لیے رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ عالم الغیب صرف ایک اللہ ہے جولوگ نبی ﷺ کو غیب دان کہتے ہیں وہ آپ سے محبت نہیں بلکہ عداوت کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ کو اللہ کے برابر لانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4001
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5147
5147. سیدنا خالد بن ذکوان سے روایت ہے وہ سیدنا ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب میری رخصتی ہوئی تو نبی ﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے۔ اس دوران میں ہماری چھوٹی چھوٹی بچیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور میرے آباء و اجداد جو غزوہ بدر میں شہید ہو چکے تھے ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ ان میں سے ایک بچی نے اچانک کہہ دیا: ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتوں کی خبر رکھتا ہے جو آئیندہ کل آنے والی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کہنا چھوڑ دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5147]
حدیث حاشیہ: (1) مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے آج بھی نکاح یا ولیمے کے موقع پر دف کا استعمال جائز ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں: ٭دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس میں گھنگرو کی جھنکار نہیں ہونی چاہیے۔ ٭دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں کیونکہ ان آلات کی حرمت پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ ٭خوشی کے موقع پر صرف رزمیہ اشعار پڑھے جائیں جو شجاعت و بہادری پر مشتمل ہوتے ہیں، بزمیہ قسم کے اشعار پڑھنے سے اجتناب کیا جائے جو ہیجان انگیز اور عشقیہ ہوتے ہیں۔ ٭جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں ہی ایسے موقع پر گنجائش سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اگر بچیوں کے اشعار پڑھنے سے کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو ان پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ٭یہ اہتمام ایسے حلقے میں ہو جہاں عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کا دل بہلانے کے لیے اس قسم کی محفل کا اہتمام کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ ٭وہ اشعار خلاف شریعت مضامین پر مشتمل نہ ہوں۔ اگر شریعت سے متصادم اشعار ہوں تو ان پر پابندی لگانا شریعت کا عین تقاضا ہے۔ مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ والله اعلم(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء کے بستر پر ان کے پاس بیٹھے۔ یہ آپ کی خصوصیت تھی کہ آپ اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کر سکتے تھے اور اسے دیکھ بھی سکتے تھے جیسا کہ آپ ام حرام بنت ملحان کے پاس تشریف لےجاتے، ان کے گھر آرام فرماتے اور وہ آپ کے سرمبارک کو آرام پہنچاتی تھیں، حالانکہ وہ آپ کی محرمہ نہ تھی اور نہ ان کے ساتھ زوجیت ہی کا تعلق تھا۔ (فتح الباري: 254/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5147