(مرفوع) حدثنا بكر بن خلف ابو بشر ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا داود بن ابي هند ، حدثني عمرو بن سعيد ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الحمد لله نحمده ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور انفسنا، ومن سيئات اعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، واشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، واشهد ان محمدا عبده ورسوله اما بعد". (مرفوع) حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خطبہ میں) فرمایا: «الحمد لله نحمده ونستعينه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله. أما بعد»”بیشک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریفیں بیان کرتے ہیں، ہم اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اسی سے مغفرت چاہتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں، اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، اللہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جیسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں“۔
It was narrated from Ibn `Abbas that:
The Prophet (ﷺ) said: “Al-hamdu lillahi nahmadhu wa nasta`inuhu wa na`udhu billahi min shururi anfusina wa min sayi'ati a`malina, man yahdihillahu fala mudilla lahu, wa man yudlil fala hadiya lahu. Wa ashadu an la ilaha illallahu wahduhu la sharika lahu, wa anna Muhammadan `abduhu wa rasuluhu. Amma ba`d. (Praise is to Allah, we praise Him and we seek His help. We seek refuge with Allah from the evil of our own souls and from our bad deeds, Whomsoever Allah guides will never be led astray; and whomsoever is led astray, no one can guide. I bear witness that none has the right to be worshiped but Allah, alone with no partner or associate, and that Muhammad is His slave and His Messenger. To proceed).”
الحمد لله نحمده ونستعينه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أما بعد
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1893
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اہم بات چیت اللہ تعالیٰ کی تعریف سے شروع کرنا مسنون ہے۔
(2) ہر کام میں اللہ سے مدد مانگنا اور اسی سے توفیق طلب کرنا توحید کا حصہ ہے۔
(3) انسان کا دل گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں برے کام سرزد ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انسان ایک کام کو اپنے لیے بہتر سمجھ کر کرتا ہے لیکن اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ ان برے نتائج سے اللہ کی رحمت کے ساتھ ہی محفوظ رہا جا سکتا ہے لہذا اللہ ہی سے دعا کی جاتی ہے کہ نکاح کا معاملہ ہو یا دوسرے اہم معاملات اللہ اس کا انجام بہتر کرے۔
(5) ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے لہٰذا اسی سے ہدایت اور رہنمائی طلب کی جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1893
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2008
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ازد شنوء قبیلہ کا فرد ضماد مکہ آیا وہ آسیب کا دم کرتا تھا اس نے مکہ کے بے وقوف اور کم عقل لوگوں سے سنا کہ محمد (ﷺ) دیوانہ ہے تو اسنے دل میں کہا، اگر میں اس آدمی کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھوں شفا بخش دے، اس کے لیے وہ آپﷺ سے ملا اور کہا: اے محمد (ﷺ) میں جنات کے اثر زائل کرنے کے لیے دم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھوں شفا بخشتا ہے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2008]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ آپﷺ کے خطبہ کے کلمات اس قدر جامع اور پرتاثیر ہیں کہ ایک صاحب دانش وبینش، ان کلمات کو سن کر ہی آپﷺ کے دین کی حقانیت اور آپﷺ کی صداقت کا قائل ہوجاتا ہے۔ بشرط یہ کہ وہ ان کلمات کے معانی اور مطالب کو سمجھتا ہو اور صاحب فکر اور اہل نظرہو۔ 2۔ ضماد کا تصور یہ تھا کہ جنون ودیوانگی آسیبی مرض ہے جو جنات کی چھوت سے پیدا ہوتا ہے اس لیے اس نےکہا: (إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ) ”میں جنات کے اثر کو دم سے زائل کرتا ہوں“ اگر آپﷺ رغبت اور خواہش رکھتے ہوں تو میں آپﷺ کو بھی دم کردیتا ہوں تو آپﷺ نے اسے خطبہ کے کلمات سنائے تاکہ اسے پتہ چل سکے کہ اس افواہ میں حقیقت کتنی ہے اور افسانہ کتنا ہے۔ اس نے یہ کلمات سن کر تجزیہ وتحلیل کر کے بتا دیا کہ فن گفتگو کا کوئی ماہر اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔ ناموس البحر سمندر کی تہہ اور اس کی گہرائی کو کہتے ہیں کہ میں آپﷺ کے کلام میں تو کمال درجہ کی فصاحت وبلاغت ہے۔ اس درجہ تک تو اس میدان کا کوئی شاہسوار نہیں پہنچ سکتا۔ 3۔ جاہلیت کے دستور اوراصول کے مطابق کہ ہرقبیلہ اور ہر قوم اپنے سردار کے پیچھے چلتا۔ آپﷺ نے ضماد کے اسلام لانے کو پوری قوم کے اسلام لانے کا پیش خیمہ قراردیا۔ اور اس کی قوم کی طر ف سے بھی اسلام لانے کی بیعت لے لی۔