عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزہ دار کو فحش اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے، اور مسکینوں کی خوراک کے لیے فرض قرار دیا، لہٰذا جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کر دیا، تو یہ مقبول زکاۃ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: لیکن صدقہ فطر نہ ہوا، صحیحین میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، سنت یہی ہے کہ صدقہ فطر نماز کے لئے جانے سے پہلے دے دے، اور اگر رمضان کے اندر ہی عید سے پہلے دے دے تو بھی جائزہے، لیکن عید کی صبح سے زیادہ اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
It was narrated that:
Ibn Abbas said: “The Messenger of Allah (ﷺ) enjoined Zakatul-Fitr as a purification for the fasting person from idle talk and obscenities, and to feed the poor. Whoever pays it before the (Eid) prayer, it is an accepted Zakah, and whoever pays it after the prayer, it is (ordinary) charity.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1827
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صدقہ فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ غریب اور مسکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں۔
(2) مسلمان اپنی خوشی میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شریک کرتا ہے۔
(3) صدقہ فطر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ روزے کے آداب میں ہو جانے والی کمی اور کوتاہی معاف فرما دیتا ہے۔
(4) نماز عید سے پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کا آخری وقت ہے۔ عید کے دن سے پہلے ادا کر دینا بھی درست ہے۔ حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کر دیا کرتے تھے۔“(صحیح البخاري، الزکاۃ، باب صدقة الفطر علی الحر والمملوک، حدیث: 1511)
(5) اگر صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا جا سکے تو بعد میں ادا کر دینا چاہیے اس سے اگر صدقہ فطر کا خاص ثواب تو نہیں ملے گا تاہم عام صدقے کا ثواب مل جائے گا اور اس طرح اس محرومی کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1827
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 507
´صدقہ فطر کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر (فطرانہ) روزہ دار کی لغویات اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کیلئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کیلئے مقرر کیا ہے۔ جو اسے نماز ادا کرنے سے پہلے ادا کر دے وہ مقبول ہے اور جو ادائیگی نماز کے بعد دیا جائے تو یہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 507]
لغوی تشریح 507: طُھرَۃً ”طا“ پر ضمہ ہے۔ مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، معنی ہے: روزے دار کے نفس کی طہارت کے لیے۔ ٘ مِنَ اللَّغوِ لغو کا تعلق زبان و قول سے ہوتا ہے، دل سے نہیں۔ ٘٘ وَالرَّفَثِ فحش کلامی۔ ٘٘ طُعمَۃً ”طا“ پر ضمہ ہے، کھانا۔ اس کا عطف طھرۃ کے لفظ پر ہے۔ علماے کرام بیان کرتے ہیں کہ مساکین کا بالخصوص ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ صدقۂ فطر صرف انہی کا مخصوص استحقاق ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ صدقۂ فطر کا مصرف وہی جگہیں ہیں جو زکاۃ کے مصارف ہیں۔ بعض اصناف کا نص میں ذکر اس کی تخصیص کو مستلزم نہیں ہے جیسا کہ زکاۃ کے مسئلے میں بھی واقع ہوا ہے۔ ٘ مَن أَدَّاھَا قَبلَ الصَّلَاۃِ ننماز عید سے پہلے ادا کر دیا۔ ٘صَدَقَۃٌ مِّنَ الصَّدَقَاتِ یعنی پھر یہ عام صدقہ ہو گا۔ صدقۂ فطر نہیں ہو گا اور آدمی فریضے کا تارک ہی رہے گا۔
فائدہ 507: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ فطرانہ مساکین کا حق ہے۔ یہ حق نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔ نمازِ عید کے بعد ادا شدہ فطرانہ ایک عام صدقہ ہو گا، فطرانۂ عید نہیں ہو گا۔ واللہ اعلم
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 507
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1609
´صدقہ فطر کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1609]
1609. اردو حاشیہ: ➊ رسول اللہ ﷺنے نفس کے تزکیہ کی غرض سے غیر شعوری طور پر یا غلطی سے کسی بے احتیاطی کے ارتکاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مالی خرابی کی تطہیر کے لئے زکواۃ فرض کی اسی طرح روزے کے دوران میں سرزد ہونے والے کسی لغو کا م یا نا مناسب بات سے روزے کی تطہیر کے لئے زکواۃ الفطر کو فرض قرار دیا۔آپﷺ نے ا س کی ادایئگی کو نماز عید کی ادایئگی کےلئے نکلنے سے پہلے ضروری قرار دیا۔اس ادایئگی کو آپﷺ نے خود اپنے الفاظ میں زکواۃ الفطر قرار دیا۔اور بعد کی ادایئگی کو عام صدقات میں سے ایک صدقہ قراردیا۔جس کے زریعے سے اصل فریضہ ادا نہیں ہوتا۔صحیح بخاری کی روایات میں بھی فطرانے کو زکواۃ الفطر اورفرض قرار دیا گیا ہے۔احادیث نبویہ میں اس بات کی صراحت کردی گئی کہ اس زکواۃ کے لئے کوئی نصاب مقرر نہیں۔ بلک ہر چھوٹے بڑے مرد عورت اور آذاد یا غلام کی طرف سے اس کی ادایئگی فرض ہے حتیٰ کہ ایک روز کے بچے کی طرف سے بھی فطرانہ دینا ضروری ہے صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے یہ تصریح فرمادی کہ زکواۃ الفطر مسلمانوں میں سے ہر نفس پر فرض ہے۔اور کسی جگہ اشارتاً بھی یہ نہیں فرمایا کہ ہر نفس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں۔جن کے پاس دوسری زکواۃ(زکواۃ مال) کا نصاب نہ ہو۔اس لئے صاحب نصاب ہونے کی شرط جو بعض لوگوں نے محض اپنی رائے سے لگائی ہے درست نہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔دائود ظاہری کے علاوہ باقی سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلام کی طرف سے اس کا آقا ادا کرے گا۔یا جس طرح اس کافرض ہے۔کہ غلام کے لئے نماز کی ادایئگی ممکن بنائے اسی طرح اس کا فرض ہے کہ اس کی طرف سے زکواۃ الفطر کی ادایئگی ممکن بنائے۔ بلکہ صحیح مسلم میں تو صراحت ہے کہ مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکواۃ نہیں۔تاہم غلام کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیاجائے۔اس طرح کم عمر بچوں کیطرف سے زکواۃ کی ادایئگی کا حکم ولی (والد یا کسی دوسرے سر پرست) کو ہے۔(فتح الباری کتاب الذکاۃ باب فرض صدقۃ الفطر ملخصاً) ➋ صیام رمضان کے اختتام پر زکواۃ الفطر کو فرض قرار دیا گیا ہے۔جس کے دو مقصد اس حدیث میں بتلائے گئے ہیں۔اول یہ کہ روزے کی حالت میں باوجود سعی وکوشش کے بتقاضائے بشریت اگر کچھ انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کاارتکاب ہوگیا۔ ہو تو اس سے اس کی تلافی ہوجائےگی۔دوسرا یہ کہ نادار اور مفلس لوگ خاص اہتمام کرکے اس ملی تہوار کی مسرتوں میں شیک ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اس صدقے کے زریعے سے ان سے تعاون کرکے انہیں بھی اس قابل بنادیاجائے۔کہ وہ عید کا یہ اضافی خرچ اس طرح برداشت کرلیں۔اورزیر بار ہوئے بغیر عید کی مسرتوں میں شریک ہونے کے لئے کچھ نہ کچھ اہتمام کرسکیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1609