(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي ، حدثنا بكر بن سليم ، حدثني حميد بن زياد الخراط ، حدثنا شريك ، عن كريب مولى عبد الله بن عباس، قال: هلك ابن لعبد الله بن عباس ، فقال لي: يا كريب، قم فانظر: هل اجتمع لابني احد؟، فقلت: نعم، فقال: ويحك، كم تراهم، اربعين؟، قلت: لا، بل هم اكثر، قال: فاخرجوا بابني، فاشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من اربعين من مؤمن يشفعون لمؤمن إلا شفعهم الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمٍ ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ الْخَرَّاطُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَلَكَ ابْنٌ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ لِي: يَا كُرَيْبُ، قُمْ فَانْظُرْ: هَلِ اجْتَمَعَ لِابْنِي أَحَدٌ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: وَيْحَكَ، كَمْ تَرَاهُمْ، أَرْبَعِينَ؟، قُلْتُ: لَا، بَلْ هُمْ أَكْثَرُ، قَالَ: فَاخْرُجُوا بِابْنِي، فَأَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ أَرْبَعِينَ مِنْ مُؤْمِنٍ يَشْفَعُونَ لِمُؤْمِنٍ إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللَّهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: اے کریب! جاؤ، دیکھو میرے بیٹے کے جنازے کے لیے کچھ لوگ جمع ہوئے ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے، ان کی تعداد کتنی سمجھتے ہو؟ کیا وہ چالیس ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، بلکہ وہ اس سے زیادہ ہیں، تو انہوں نے کہا: تو پھر میرے بیٹے کو نکالو، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اگر چالیس ۱؎ مومن کسی مومن کے لیے شفاعت کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو قبول کرے گا“۔
وضاحت: ۱؎: اوپر کی حدیث میں سو مسلمان کا ذکر ہے، اور اس حدیث میں چالیس کا، بظاہر دونوں میں تعارض ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ کو سو کی تعداد بتائی گئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مزید احسان فرمایا، اور اس تعداد میں تخفیف فرما دی، اور سو سے گھٹا کر چالیس کر دی، نیز چالیس کا عدد مغفرت کے لئے کافی ہے، اب اگر سو ہوں گے تو اور زیادہ مغفرت کی امید ہے، «ان شاء اللہ العزیز» ۔
It was narrated that Kuraib the freed slave of ‘Abdullah bin ‘Abbas said:
“A son of ‘Abdullah bin ‘Abbas died, and he said to me: ‘O Kuraib! Get up and see if anyone has assembled (to pray) for my son.’ I said: ‘Yes.’ He said: ‘Woe to you, how many do you see? Forty?’ I said: ‘No, rather there are more.’ He said: ‘Take my son out, for I bear witness that I hear the Messenger of Allah (ﷺ) say: “No (group of) forty believers intercede for a believer, but Allah will accept their intercession.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بكر بن سليم ضعيف ضعفه الجمھور و حديث مسلم (948) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 431
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1489
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1) نماز باجماعت جنازہ کی ہو یا کوئی دوسری نماز اس میں جتنے زیادہ افراد شریک ہوں اسی قدرافضل ہوتی ہے اس لئے مسلمانوں کو جنازہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہونا چاہیے۔ تاکہ ہر نمازی کوزیادہ سےزیادہ ثواب ملے۔
(2) پہلی حدیث میں سو افراد کے جنازہ پڑھنے پر میت کی مغفرت کا ذکر ہے جبکہ دوسری حدیث میں چالیس افراد کا ذکر ہے۔ ممکن ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے سو افراد کی دعا سے میت کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہو۔ بعد میں امت محمدیہ پر مزید احسان فرماتے ہوئے چالیس افراد کی دعا سے مغفرت کی بشارت دے دی ہو۔
(3) یہ وعدہ ایسے مسلمان افراد کے جنازہ پڑھنے پر ہے جوشرک کے مرتکب نہ ہوں کیونکہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ جو مسلمان وفات پا جائے۔ اور اس کے جنازے میں چالیس ایسے آدمی شریک ہوں جو شرک نہ کرتے ہوں تو اللہ ان کی سفارش قبول فرما لیتا ہے۔ (صحیح المسلم، الجنائز، باب من صلی علیه أربعون شفعوافیه، حدیث: 948)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1489
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 450
´جنازے میں زیادہ افراد کی شرکت کی فضیلت` ”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”کوئی مسلمان نہیں مرتا کہ اس کے جنازے میں ایسے چالیس آدمی شریک ہوں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس مرنے والے کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما لیتا ہے۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 450]
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے جنازے میں زیادہ افراد کی شرکت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ➋ حدیث میں چالیس موحد لوگوں کی شفاعت کا ذکر ہے۔ بعض احادیث میں سو کی تعداد ہے۔ [سنن ابن ماجه، الجنائز، حديث: 1488] اور بعض میں تین صفوں کا ذکر ہے۔ [سنن ابي داود، الجنائز، حديث: 3166] لیکن یہ روایت ضعیف ہے، تاہم بعض حضرات نے مالک بن ہبیرہ کے اثر کو حسن قرار دے کر اس مسئلے کا اثبات کیا ہے جیسا کہ امام شوکانی وغیرہ نے بھی اس حدیث سے تین صفوں کی فضیلت کا اثبات کیا ہے۔ دیکھیے: [نيل الاوطار: 62/4] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سائلین کے جواب میں موقع محل کے اعتبار سے آپ نے تعداد کا ذکر فرمایا ہے۔ اور بعض علماء اس کی بابت یوں لکھتے ہیں: ممکن ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے سو افراد کی دعا سے میت کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہو، بعد میں امت محمدیہ پر مزید احسان فرماتے ہوئے چالیس افراد کی دعا کی بشارت دے دی ہو۔ واللہ اعلم
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 450
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3170
´جنازہ پڑھنے اور میت کے ساتھ جانے کی فضیلت۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی مسلمان ایسا نہیں جو مر جائے اور اس کی نماز جنازہ ایسے چالیس لوگ پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی طرح کا بھی شرک نہ کرتے ہوں اور ان کی سفارش اس کے حق میں قبول نہ ہو ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3170]
فوائد ومسائل: 1۔ جو لوگ اس بات کے متمنی ہوں کہ ان کی دعایئں قبول ہوا کریں۔ اور بالخصوص اموات کے متعلق ان کی دعایئں منظور ہوں توچاہیے کہ شرک سے دور رہیں۔ اور ایمان و تقویٰ کے تقاضے پورے کرنے والے بنیں۔
2۔ جنازے میں شرکت کےلئے موحدین (شرک وبدعت سے بیزار بری) حضرات کو بالخصوص اطلاع دی جائے۔ تاکہ مرنے والے کو فی الواقع فائدہ پہنچے۔ مشرک ومبتدع لاکھوں اکھٹے ہوجایئں تو کیا فائدہ؟ اور جنازے میں موحدین کی تعداد جس قدر زیادہ ہو مستحب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3170
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2199
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ایک بیٹے کا انتقال مقام قدید یا مقام عسفان میں ہو گیا، تو انہوں نے کہا، اے کریب! دیکھو کس قدر بوگ جمع ہو چکے ہیں، میں با ہر نکلا تو دیکھا کہ اس کی خاطر کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں تو میں نے ان کو اطلا ع دی۔ انھوں نے پوچھا تیرے خیال میں وہ چالیس ہوں گے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: جنازہ باہر نکالو کیونکہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2199]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ نمازجنازہ میں صرف کثرت ہی مطلوب اور باعث رحمت وبرکت نہیں ہے بلکہ جنازہ پڑھنے والے اہل توحید مسلمان ہوں۔ جو اخلاص نیت کے ساتھ میت کے حق میں دعا اور سفارش کریں۔ اور قدید اورعسفان کے مکہ معظمہ سے کچھ فاصلہ پر رابغ کے آگے اور پیچھے دو مقام میں راوی کو شک کہ ا ن دو مقامت میں سے کس مقام پر یہ حادثہ پیش آیا۔