(مرفوع) حدثنا عيسى بن حماد المصري ، انبانا الليث بن سعد ، عن سعيد المقبري ، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر ، انه سمع انس بن مالك يقول:" بينما نحن جلوس في المسجد، دخل رجل على جمل، فاناخه في المسجد، ثم عقله، ثم قال لهم: ايكم محمد؟ ورسول الله صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم، قال: فقالوا: هذا الرجل الابيض المتكئ، فقال له الرجل: يا ابن عبد المطلب، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: قد اجبتك، فقال له الرجل: يا محمد، إني سائلك ومشدد عليك في المسالة، فلا تجدن علي في نفسك، فقال: سل ما بدا لك، قال له الرجل: نشدتك بربك ورب من قبلك، آلله ارسلك إلى الناس كلهم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم نعم، قال: فانشدك بالله، آلله امرك ان تصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة؟، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم نعم، قال: فانشدك بالله، آلله امرك ان تصوم هذا الشهر من السنة؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم نعم، قال: فانشدك بالله، آلله امرك ان تاخذ هذه الصدقة من اغنيائنا، فتقسمها على فقرائنا؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم نعم، فقال الرجل: آمنت بما جئت به، وانا رسول من ورائي من قومي"، وانا ضمام بن ثعلبة اخو بني سعد بن بكر. (مرفوع) حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ، دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ، فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، قَالَ: فَقَالُوا: هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَبْتُكَ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي سَائِلُكَ وَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ، فَلَا تَجِدَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ، فَقَالَ: سَلْ مَا بَدَا لَكَ، قَالَ لَهُ الرَّجُلُ: نَشَدْتُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنَ السَّنَةِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا، فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، فَقَالَ الرَّجُلُ: آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي"، وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں اونٹ پر سوار ایک شخص آیا، اور اسے مسجد میں بٹھایا، پھر اسے باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد کون ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے، لوگوں نے کہا: یہ ہیں جو سفید رنگ والے، اور تکیہ لگائے بیٹھے ہیں، اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”ہاں، میں نے تمہاری بات سن لی“، تو اس شخص نے کہا: اے محمد! میں آپ سے ایک سوال کرنے والا ہوں، اور سوال میں سختی برتنے والا ہوں، تو آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو چاہو پوچھو“، اس شخص نے کہا: میں آپ کو آپ کے رب کی قسم دیتا ہوں، اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب لوگوں کی جانب نبی بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! ہاں“، پھر اس شخص نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! ہاں“، پھر اس شخص نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال کے اس مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! ہاں“، اس شخص نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہمارے مالداروں سے زکاۃ و صدقات لیں، اور اس کو ہمارے غریبوں میں تقسیم کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! ہاں“، تو اس شخص نے کہا: میں آپ کی لائی ہوئی شریعت پہ ایمان لایا، اور میں اپنی قوم کے ان لوگوں کے لیے پیغام رساں کی حیثیت سے ہوں جو پیچھے رہ گئے ہیں، اور میں قبیلہ بنو سعد بن بکر کا ایک فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں۔
It was narrated from Sharik bin ‘Abdullah bin Abu Namir that he heard Anas bin Malik say:
“While we were sitting in the mosque, a man entered riding a camel; he made it kneel in the mosque, then he hobbled it and said to them: ‘Which of you is Muhammad?’ The Messenger of Allah (ﷺ) was reclining among them, so they said: ‘This fair- skinned man who is reclining.’ The man said to him: ‘O son of ‘Abdul- Muttalib!’ The Prophet (ﷺ) said: ‘I am listening to you.’ The man said: O Muhammad! I am asking you and will be stern in asking, so do not bear any ill-feelings towards me.’ He said: ‘Ask whatever you think.’ The man said: ‘I adjure you by your Lord and the Lord of those who came before you, has Allah sent you to all of mankind?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘By Allah, yes.; He said: ‘I adjure you by Allah, has Allah commanded you to pray the five prayers each day and night?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘By Allah, yes.’ He said: ‘I adjure you by Allah, has Allah commanded you to fast this month of each year?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘By Allah, yes.’ He said: ‘I adjure you by Allah, has Allah commanded you to take this charity from our rich and distribute it among our poor?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘By Allah, yes.’ The man said: ‘I believe in what you have brought, and I am the envoy of my people who are behind me. I am Dimam bin Tha’labah, the brother of Banu Sa’d bin Bakr.’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1402
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد سادہ اور کچی تھی۔ اس لئے اونٹ وغیرہ کے آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے اونٹوں کے بٹھانے کے لئے جگہ مخصوص ہو۔ اس بنا پرآجکل مسجد کے ساتھ سائیکلوں سکوٹروں اور گارڑیوں وغیرہ کے لئے جگہ خاص کی جا سکتی ہے۔
(2) مجلس میں معزز شخصیت کے لئے نمایاں نشست مخصوص کی جاسکتی ہے۔ تاکہ آنے والے اجنبیوں کو پہچاننے میں مشکل نہ ہو۔
(3) اگر سوا ل کرتے ہوئے ادب و احترام کا مناسب خیال نہ رکھ سکے۔ تو عالم کو چاہیے کہ ناراضی محسوس نہ کرے۔
(4) ایک راوی کی روایت (خبر واحد) قابل قبول ہے۔ جب کہ وہ راوی قابل اعتماد (ثقہ) ہو۔
(5) عالم کے پاس سفر کرکے جانا اور اس سے مسائل کی تحقیق کرنا مستحسن ہے۔
(6) نازل سند کے ساتھ حدیث معلوم ہو تو عالی سند حاصل کرنے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے۔
(7) قراءت علی الشیخ بھی حصول علم کا ایک درست طریقہ ہے۔
(8) جب قوم کسی فرد کو اپنا نمائندہ منتخب کرلے تو پھر ا س کی کاروائی پر اعتماد کرنا چاہے۔ اِلَّا یہ کہ اس سے واضح غلطی سرزد ہوجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1402
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 473
´فرضی نمازوں کی تعداد` «. . . - افترض الله على عباده صلوات خمسا، (قالها ثلاثا)، فحلف الرجل (بالله) لا يزيد عليه شيئا ولا ينقص منه شيئا، قال صلى الله عليه وسلم: إن صدق ليدخلن الجنة . . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کتنی نمازیں فرض کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کیں۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا ان سے پہلے یا بعد میں بھی کوئی نماز (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ اس آدمی نے اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے کہا: میں ان (پانچ نمازوں) میں زیادتی کروں گا نہ کمی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ (اپنے دعوے میں) سچا ہے تو جنت میں ضرور داخل ہو گا۔“ . . .“[سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 473]
� فوائد و مسائل حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں، نیز یہ بھی پتہ چلا کہ جو آدمی پانچ نمازوں کی حفاظت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخلہ نصیب فرمائے گا۔ نمازوں سے پہلے اور بعد والی سنتیں فرض نہیں ہیں، لیکن ان کی ادائیگی پر بےحد اجر و ثواب کی بشارتیں سنائی گئی ہیں، جیسا کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما من عبد مسلم يصلي لله كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا غير فريضة إلا بنى الله له بيتا فى الجنة او إلا بني له بيت فى الجنة»[صحیح مسلم] ”جو مسلمان اللہ کے لئے ہر روز بارہ رکعت نفلی نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیں گے۔“ ترمذی کی روایت کے مطابق ان بارہ رکعات کی تفصیل یہ ہے: فجر سے پہلے دو، ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد دو، مغرب کے بعد دو اور عشاء کے بعد دو۔ اسی نفلی نماز کو ہمارے معاشرے میں سنن موکدہ کہا جاتا ہے۔ علمائے حدیث نے اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ نماز وتر فرض نہیں ہے، بلکہ وہ نفلی نماز ہے اور ان شاء اللہ یہ استدلال درست ہے، اس پر مزید بحث نماز وتر کے عنوان میں کی جائے گی۔ «والله اعلم بالصواب»
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 473
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 460
´دن اور رات میں کتنی نمازیں فرض کی گئیں؟` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں“، اس نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا ان سے پہلے یا بعد میں بھی کوئی چیز ہے“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں ہی فرض کی ہیں“، تو اس آدمی نے قسم کھائی کہ وہ نہ اس پر کوئی اضافہ کرے گا، اور نہ کوئی کمی کرے گا“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے سچ کہا تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا۔“[سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 460]
460 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث کا مفہوم پچھلی حدیث کے فوائد میں بیان ہو چکا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 460