عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں میرے گھر آنے کی اجازت یہی ہے کہ تم پردہ اٹھاؤ، اور یہ کہ میری آواز سن لو، الا یہ کہ میں تمہیں خود منع کر دوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہے، چونکہ وہ خادم خاص تھے، اور برابر شریک مجلس رہا کرتے تھے، بار بار اجازت طلب کرنے میں حرج تھا، اس لئے نبی اکرم ﷺ نے ان کو یہ مخصوص اجازت عطا فرمائی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 6 (2169)، (تحفة الأشراف: 9388)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 394، 404) (صحیح)»
It was narrated that 'Abdullah said:
"The Messenger of Allah said to me: 'The sign that you have been permitted to come in is that you raise the curtain and that you hear me speaking quietly, until I forbid you.' (i.e. unless I forbid you)."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث139
اردو حاشہ: (1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ کام کاج کے لیے اکثر حاضر ہونا پڑتا تھا، چنانچہ ان کے لیے اِستیذان کے حکم میں نرمی کر دی گئی۔ قرآن مجید میں غلاموں اور لونڈیوں کو بھی تین اوقات کے علاوہ باقی کسی بھی وقت آنے جانے کے لیے بار بار اجازت مانگنے سے معاف رکھا گیا ہے۔ (سورہ نور: 58)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 139
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5666
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تیرے لیے میری یہی اجازت ہے کہ پردہ اٹھا دیا جائے اور تم میری سرگوشی سن لو، حتی کہ میں تمہیں روک دوں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5666]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تستمع سوادي: تم میری سرگوشی اور رازدارانہ گفتگو سن لو اور تمھیں میری موجودگی کا علم ہوجائے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کسی کو اجازت دینے کے لیے کوئی علامت یا نشانی مقرر کی جا سکتی ہے، اسی علامت کے طور پر آپ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرمایا، تیری آمد پر اگر پردہ اٹھا دیا جائے اور گھر میں میری موجودگی کا تمہیں یقین ہو جائے تو تم بلا روک ٹوک آ سکتے ہو۔