سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
163. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي التَّقْلِيسِ يَوْمَ الْعِيدِ
163. باب: عید کے دن دف بجانے اور کھیلنے کودنے کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning Taqlis on the day of ‘Eid
حدیث نمبر: 1302
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا شريك ، عن مغيرة ، عن عامر ، قال: شهد عياض الاشعري عيدا بالانبار، فقال:" ما لي لا اراكم تقلسون كما كان يقلس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: شَهِدَ عِيَاضٌ الْأَشْعَرِيُّ عِيدًا بِالْأَنْبَارِ، فَقَالَ:" مَا لِي لَا أَرَاكُمْ تُقَلِّسُونَ كَمَا كَانَ يُقَلَّسُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ عیاض اشعری نے شہر انبار میں عید کی اور کہا: کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح دف بجاتے اور گاتے نہیں دیکھ رہا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بجایا، اور گایا جاتا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11017، ومصباح الزجاجة: 1302) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں شریک ضعیف الحدیث راوی ہیں، اور ایسے ہی سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: رقم: 4285)

It was narrated that ‘Amir said: “Iyad Al-Ash’ari was in Anbar at the time of ‘Eid, and he said: ‘Why is it that I do not see you engaged in Taqlis as was done in the presence of the Messenger of Allah (ﷺ)?’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
شريك القاضي و مغيرة عنعنا
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 422

   سنن ابن ماجه1302موضع إرسالما لي لا أراكم تقلسون كما كان يقلس عند رسول الله

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1302 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1302  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انبار ایک شہر کا نام ہے۔

(2)
تقلیس کے معنی ہیں۔
خوشی کے موقع پر اظہار مسرت کےلئے قومی کھیل کود، بچیوں کا قومی گیت گانا یا دف وغیرہ بجا لینا۔
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
تاہم دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر ان چیزوں کا جواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا ہے۔
لیکن ایک چیز ہے گھریلو سطح پرگھریلو بچیوں کا محدود دائرے میں دف بجا کر یا آباء واجداد کے مفاخر ومآثر کے تذکروں پر مبنی قومی گیت گا کر خوشی کا اظہار کرنا، اور ایک ہے ماہرفن مغنیات کا عشقیہ مخرب اخلاق، رہزن تمکین وہوش اور غارت گر ایمان قسم کے گانے سازوآواز کے جادو کے ساتھ گانا یا پیشہ ور فاحشہ عورتوں کاعریاں یا نیم عریاں رقص وسرور کا مظاہرہ کرنا ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اوّل الذکر کے جواز کا مطلب ثانی الذکر کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔
بڑا ظالم ہے وہ شخص جو احادیث میں بیان کردہ اول الذکر قسم کے واقعات سے دوسری قسم کے فواحش ومنکرات کا جواز ثابت کرکے نبی ﷺکو بھی ان بےہودگیوں کا (نعوذ باللہ)
مؤید ثابت کرتا ہے حالانکہ آپ ﷺ تو ان فواحش کو مٹانے کےلئے آئے تھے نہ کہ ان کو برقرار رکھنے یا ان کی حوصلہ افزائی کرنے کےلئے ھداھم اللہ تعالیٰ علاوہ ازیں اول الذکر چیزیں بھی صرف مباح (جائز)
ہی ہیں نہ کہ فرض وواجب یا سنت ومستحب اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی مباح کام حرام کا ذریعہ بن رہا ہو تو وہ مباح کام بھی ناجائز قرار پاتا ہے۔
اور حرام سے بچنے بچانے کے لئے مباح کام سے بھی لوگوں کوروک دیا جاتا ہے۔
اس لئے جو علماء شادی وغیرہ کے موقع پر ان جائز چیزوں سے بھی روکتے ہیں۔
حکمت عملی کے اعتبار سے ان کا موقف اسلام کے زیادہ قریب ہے۔
کیونکہ بات صرف دف تک ہی نہیں رہتی۔
ڈھول ڈھمکوں سازوموسیقی اور بینڈ باجوں تک بلکہ مجروں اور کھلم کھلا فواحش و منکرات کے ارتکاب تک پہنچ جاتی ہے۔
أعاذنا اللہ منه
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1302   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.