سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
147. . بَابُ : النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ
147. باب: فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔
Chapter: The prohibition of Prayer after the Fajr and the ‘Asr
حدیث نمبر: 1250
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، قال: شهد عندي رجال مرضيون، فيهم عمر بن الخطاب، وارضاهم عندي عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی اچھے لوگوں نے گواہی دی، ان میں میرے نزدیک سب زیادہ اچھے شخص عمر رضی اللہ عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت30 (581)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (826)، سنن ابی داود/الصلاة 299 (1276)، سنن الترمذی/الصلاة20 (183)، سنن النسائی/المواقیت 32 (563)، (تحفة الأشراف: 10492)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/21، 39، 50، 51)، سنن الدارمی/الصلاة 142 (1473) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “Good men among whom was ‘Umar bin Khattab, and the best of them in my view is ‘Umar, testified before me that the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘There is no prayer after Fajr until the sun has risen, and there is no prayer after the ‘Asr until the sun has set.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخاري581عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس وبعد العصر حتى تغرب
   صحيح مسلم1921عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس بعد العصر حتى تغرب الشمس
   جامع الترمذي183عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس
   سنن أبي داود1276عبد الله بن عباسلا صلاة بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس
   سنن النسائى الصغرى570عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد العصر
   سنن النسائى الصغرى563عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس
   سنن ابن ماجه1250عبد الله بن عباسلا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1250 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1250  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے حدیث بیان کرتے وقت یہ الفاظ کہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی۔
اور اس سے مقصود محض تاکید ہے۔
جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انھیں یہ حدیث پوری طرح یاد ہے۔
اور وہ اسے پورے اعتماد سے بیان کررہے ہیں۔
جس طرح گواہی پورے یقین اور اعتماد کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

(2)
حدیث قابل اعتماد اور ثقہ افراد کی روایت کی ہوئی قبول ہوتی ہے۔
ناقابل اعتماد افراد کی روایت کردہ حدیث قبول کرنا درست نہیں۔

(3)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے جوحدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی ہوتی تھی وہ دوسرے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے سن کر روایت کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
یعنی قابل اعتماد افراد کی روایت کردہ صحیح سند والی حدیث پر عمل کرنا صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے ہاں بھی واجب تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1250   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1276  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ہے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور میرے نزدیک عمر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے پسندیدہ شخص تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز نہیں، اور نہ عصر کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے کوئی نماز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1276]
1276۔ اردو حاشیہ:
➊ سورج طلوع یا غروب ہونے میں دیر ہو تو سببی پڑھی جا سکتی ہے۔ ویسے عام نفل پڑھنا ناجائز ہے۔
➋ اہل بیت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں انتہائی اخوت اور محبت کے روابط تھے، بہت بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کا حریف ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1276   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 183  
´عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے نماز ۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
1؎:
بخاری کی روایت میں ((حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ)) ہے،
دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔

2؎:
مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی نمازوں سے منع کیا گیا ہے،
فرض نمازوں کی قضاء،
تحیۃ المسجد،
تحیۃ الوضوء،
طواف کی دو رکعتیں اور صلاۃِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 183   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:581  
581. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میرے سامنے چند پسندیدہ لوگوں نے جن میں سب سے زیادہ پسندیدہ حضرت عمر ؓ تھے، یہ بیان کیا کہ نبی ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:581]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان سے امام بخاری ؒ حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ طلوع شمس سے مراد اس کا خوب بلند ہونا ہے، علاوہ ازیں حدیث میں نماز کے متعلق دواوقات کا بیان ہے جبکہ عنوان میں نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز سے منع رہنے کا حکم ہے۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے اور فجر کےبعد طلوع آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کسی موقع پر نماز نہیں پڑھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے عنوان میں صرف نماز فجر کے بعد نماز کے منع ہونے کو اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 77/2) (2)
اس حدیث میں صرف دو اوقاتِ مکروہ کا ذکر ہے جبکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اوقات مکروہ پانچ ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک۔
٭نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک۔
٭عین طلوع آفتاب۔
٭استواء آفتاب، یعنی عین دوپہر کے وقت۔
٭عین غروب آفتاب۔
ان میں سے پہلے دو اوقات کو نماز فجر اور نماز عصر سے وابستہ کیا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو اوقات میں نماز پڑھنے کی کراہت وقت کی وجہ سے نہیں کہ وقت کی ذاتی خرابی کی بنا پر ان میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ فرض نماز کے حق کی بنا پر ہے تاکہ تمام وقت فرض نماز کے لیے وقف ہو۔
اگر وقت کی ذاتی خرابی بنا پر کراہت ہوتی تو فجرو عصر کی تاخیر طلوع غروب سے قبل تک جائز نہ ہوتی۔
اور آخری تین اوقات ممنوعہ ان کی ذاتی خرابی کی بنا پر ہیں، کیونکہ طلوع غروب کے وقت شیطان کی عبادت کی جاتی ہے اور عین دوپہر کے وقت جہنم جوش میں ہوتی ہے جو غضب الہٰی کا مظہر ہے، نیز اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان تمام اوقات مکروہ میں ایسے نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جو کسی سبب سے وابستہ نہیں ہیں اور نہ شریعت نے ان کے متعلق کوئی ترغیب ہی دی ہے، البتہ ان اوقات میں فوت شدہ نمازیں، نماز جنازہ اور ایسے نوافل پڑھے جاسکتے ہیں جو کسی سبب سے وابستہ ہیں اور شریعت نے انھیں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے. جیسا کہ تحیۃ المسجد وغیرہ۔
ایسے نوافل کو فقہی اصطلاح میں ذوات الاسباب کہا جاتا ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں قتادہ راوی نے ابو العالیہ سے جب روایت بیان کی تو اس میں سماع کی صراحت نہ تھی، اس لیے امام بخاری نے ایک دوسری سند پیش کی ہے جس میں تصریح سماع ہے۔
اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاری کو چاہیے تھا کہ وہ تصریح سماع والی روایت ہی کو بیان کردیتے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تصریح سماع والی روایت میں واسطے زیادہ تھے، اس لیے وہ ان کے نزدیک نازل سند تھی۔
پہلی روایت جس میں تصریح سماع نہیں وہ عالی سند سے بیان ہوئی ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بنیاد بنایا ہے اور اس پر جو اعتراض ہوسکتا تھا اسے دور کرنے کے لیے دوسری سند بیان کردی۔
(عمدة القاري: 110/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 581   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.