وتمثيل العاقص في الصلاة بالمكتوف فيها. وفيه ما دل على كراهة صلاة المرء مكتوفا إذا كان له السبيل إلى حل يديه من الاكتافوَتَمْثِيلِ الْعَاقِصِ فِي الصَّلَاةِ بِالْمَكْتُوفِ فِيهَا. وَفِيهِ مَا دَلَّ عَلَى كَرَاهَةِ صَلَاةِ الْمَرْءِ مَكْتُوفًا إِذَا كَانَ لَهُ السَّبِيلُ إِلَى حَلِّ يَدَيْهِ مِنَ الْأَكْتَافِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حارث کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اُن کے سر (کے بالوں) جوڑا گردن کے پیچھے بنا ہوا تھا - تو وہ کھڑے ہوئے اور ان کے ایک جوڑے کو کھول دیا اور ایک رہنے دیا اور عبداللہ بن حارث نماز میں ہی مشغول رہے (یعنی آگے سے کوئی حرکت نہیں کی) پھر جب نماز مکمّل کر لی تو وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے میرے سر (کے بالوں) کو کیوں کھولا؟ تو انہوں نے فرمایا، بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”بلاشبہ اس کی مثال اس شخص کی ہے جو دست بستہ حالت میں نماز پڑھتا ہے۔“ جناب یونس کی روایت میں ہے کہ ”اور ان کا سر گوندھا ہوا تھا۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اُن کے پیچھے کھڑے ہو کر چوٹی کھول دی اور اور اس کی دوسری چوٹی باقی رہنے دی- تمام راویوں نے اسی طرح ”اَقَرَّ“ کا لفظ استعمال کیا- امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ صحیح لفظ ”قَرَّ“ ہے ـ