وان التطبيق منهي عنه لا ان هذا من فعل المباح، فيجوز التطبيق، ووضع اليدين على الركبتين جميعا كما ذكرنا اخبار النبي صلى الله عليه وسلم في القراءة في الصلوات، واختلافهم في السور التي كان يقرا فيها صلى الله عليه وسلم في الصلاة، وكاختلافهم في عدد غسل النبي صلى الله عليه وسلم اعضاء الوضوء، وكل ذلك مباح، فاما التطبيق في الركوع فمنسوخ منهي عنه، والسنة وضع اليدين على الركبتين.وَأَنَّ التَّطْبِيقَ مَنْهِيٌّ عَنْهُ لَا أَنَّ هَذَا مِنْ فِعْلِ الْمُبَاحِ، فَيَجُوزُ التَّطْبِيقُ، وَوَضْعُ الْيَدَيْنِ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ جَمِيعًا كَمَا ذَكَرْنَا أَخْبَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَوَاتِ، وَاخْتِلَافَهُمْ فِي السُّوَرِ الَّتِي كَانَ يَقْرَأُ فِيهَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، وَكَاخْتِلَافِهِمْ فِي عَدَدِ غَسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْضَاءَ الْوُضُوءِ، وَكُلُّ ذَلِكَ مُبَاحٌ، فَأَمَّا التَّطْبِيقُ فِي الرُّكُوعِ فَمَنْسُوخٌ مَنْهِيٌّ عَنْهُ، وَالسُّنَّةُ وَضْعُ الْيَدَيْنِ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ.
اور بلاشبہ تطبیق کا عمل ممنوع ہےـ یہ جائز نہیں ہے کہ تطبیق اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا دونوں عمل ہی درست ہوں جیسا کہ ہم نے نمازوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق(مختلف)احادیث بیان کی ہیں-اور ان سورتوں کے بارے میں صحابہ کرام کا اختلاف ذکر کیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پڑھا کرتے تھے- یا جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے وضو کے دھونے کی تعداد کے بارے میں صحابہ کرام کا اختلاف ذکر کیا ہے-یہ سب طریقے جائز ہیں لیکن رکوع میں تطبیق کا عمل منسوخ اور منع ہوچکا ہے-اور سنت طریقہ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنا ہےـ
حضرت مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میں جب رُکوع کرتا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں کے درمیان رکھ لیتا۔ میرے والد محترم سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے مجھے (ایسے کرتے ہوئے) دیکھا تو مجھے منع کیا اور فرمایا کہ بیشک ہم اسی طرح کیا کرتے تھے پھر ہمیں منع کر دیا گیا، پھر ہمیں حُکم دے دیا گیا کہ ہم انہیں اپنے گھٹنوں کی طرف اُٹھایا کریں (یعنی گھٹنوں پر رکھا کریں)