ناه بندار، نا ابو عاصم، اخبرنا ابن جريج، اخبرني عبد العزيز بن عبد الملك بن ابي محذورة، عن عبد الله بن محيريز، وحدثناه يعقوب بن إبراهيم الدورقي، نا روح، نا ابن جريج، اخبرني عبد العزيز بن عبد الملك بن ابي محذورة، ان عبد الله بن محيريز، اخبره، وكان يتيما في حجر ابي محذورة بن معير حين جهزه إلى الشام، فقلت لابي محذورة: إني خارج إلى الشام، وإني اسال عن تاذينك، فذكر الحديث بطوله إلا ان بندارا قال في الخبر: من اول الاذان والقى على رسول الله صلى الله عليه وسلم التاذين هو نفسه، فقال: قل:" الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، ثم ذكر بقية الاذان مثل خبر مكحول، عن ابن محيريز، ولم يذكر الإقامة، وزاد في الحديث زيادة كثيرة قبل ذكر الاذان وبعده، وقال الدورقي قال في اول الاذان: الله اكبر، الله اكبر" وباقي حديثه مثل لفظ بندار،
وهكذا رواه روح، عن ابن جريج، عن عثمان بن السائب، عن ام عبد الملك بن ابي محذورة، عن ابي محذورة قال في اول الاذان: الله اكبر، الله اكبر، لم يقله اربعا، قد خرجته في باب التثويب في اذان الصبح،
ورواه ابو عاصم وعبد الرزاق، عن ابن جريج، وقالا في اول الاذان: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر
قال ابو بكر: فخبر ابن ابي محذورة ثابت صحيح من جهة النقل، وخبر محمد بن إسحاق، عن محمد بن إبراهيم، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، عن ابي ثابت صحيح من جهة النقل؛ لان ابن محمد بن عبد الله بن زيد قد سمعه من ابيه، ومحمد بن إسحاق قد سمعه من محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، وليس هو مما دلسه محمد بن إسحاق، وخبر ايوب وخالد، عن ابي قلابة، عن انس صحيح لا شك ولا ارتياب في صحته،ناه بُنْدَارٌ، نا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ، وَحَدَّثَنَاهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، نا رَوْحٌ، نا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الْمَلَكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَيْرِيزٍ، أَخْبَرَهُ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي مَحْذُورَةَ بْنِ مِعْيَرٍ حِينَ جَهَّزَهُ إِلَى الشَّامِ، فَقُلْتُ لِأَبِي مَحْذُورَةَ: إِنِّي خَارِجٌ إِلَى الشَّامِ، وَإِنِّي أُسْأَلُ عَنْ تَأْذِينِكَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ إِلَّا أَنَّ بُنْدَارًا قَالَ فِي الْخَبَرِ: مِنْ أَوَّلِ الْأَذَانِ وَأَلْقَى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّأْذِينَ هُوَ نَفْسِهِ، فَقَالَ: قُلْ:" اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ ذَكَرَ بَقِيَّةَ الْأَذَانِ مِثْلَ خَبَرِ مَكْحُولٍ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْإِقَامَةَ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ زِيَادَةً كَثِيرَةً قَبْلَ ذِكْرِ الْأَذَانِ وَبَعْدَهُ، وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ قَالَ فِي أَوَّلِ الْأَذَانِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ" وَبَاقِي حَدِيثِهِ مِثْلُ لَفْظِ بُنْدَارٍ،
حضرت عبداللہ بن محیریز جو کہ سیدنا ابومحذورہ بن معیر رضی اللہ عنہ کی پروش میں مقیم تھے، جب اُنہیں سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے شام روانہ کرنے کے لیے تیار کیا تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں شام کی طرف جارہا ہوں اور بیشک مجھ سے آپ کی اذان کے متعلق پوچھا جائے گا، پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ مگر بندار نے اپنی روایت میں اذان کے شروع سے بیان کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود مجھے اذان سکھائی تو کہا کہ کہو «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» پھر باقی اذان مکحول کی ابن محیریز سے روایت کی طرح بیان کی اور اقامت کا ذکر نہیں کیا اور اذان کے ذکر سے پہلے اور بعد میں بہت سارے اضافے حدیث میں بیان کئے ہیں، دورقی کہتے ہیں کہ اذان کی ابتدامیں کہا «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ۔ (یعنی دو مرتبہ کہا) باقی حدیث بندار کی روایت جیسی ہے۔ اس طرح روح نے اپنی سند سے سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان کے شروع میں دو دفعہ «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» روایت کیا ہے، چار مرتبہ روایت نہیں کیا۔ میں نے اسے صبح کی اذان میں تثویب کے باب میں بیان کیا ہے۔ اور ابوعاصم اور عبدالرزاق نے ابن جریج سے روایت کیا تودونوں نے اذان کی ابتداء میں «اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» کہا (یعنی چار مرتبہ روایت کیا ہے) امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن ابی محذورہ کی حدیث نقل کے اعتبار سے صحیح ہے۔ کیونکہ یہ روایت ابن محمد بن عبداللہ بن زید نے اپنے باپ سے سنی ہے اور محمد بن اسحاق نے یہ روایت محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی سے سنی ہے اور وہ ان راویوں میں سے نہیں ہیں جن سے محمد بن اسحاق نے تدلیس کی ہے اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت جسے ابو قلابہ سے ایوب اور خالد روایت کرتے ہیں اس کی صحت میں کوئی بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ اور ہم اس بات کی دلیل بیان کر چکے ہیں کہ اس (سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کودوہری اذان اور اکہری اقامت کہنے) کا حُکم دینے والے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ البتہ عراقیوں نے سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ بھی نقل کے اعتبار سے صحیح ہے۔ اور اُنہوں نے ان سے اسانید کو خلط ملط کر دیا ہے جن کے ذریعے وہ سیدنا عبداﷲ بن زید رضی اللہ عنہ سے اذان اور اقامت دونوں کو دہرانے کے بارے میں روایت کرتے ہیں۔ لہٰذا اعمش نے عمرو بن مرہ سے اور اُنہوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے کہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اذان دیکھی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بلال کو سکھا دو“ لہٰذا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو اُنہوں نے دوہری اذان کہی اور اقامت کے کلمات بھی دو دو مرتبہ کہے۔ اور (اذان اور اقامت کے درمیان ایک مرتبہ) بیٹھ گئے۔