ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
والدليل على ان المفيض من عرفة بعد زوال الشمس قبل غروب الشمس من ليلة النحر مدرك للحج غير فائت الحج، ضد قول من زعم ان المفيض من عرفة الخارج من حدها قبل غروب الشمس ليلة النحر فائت الحج، إذا لم يرجع فيدخل حد عرفة قبل طلوع الفجر من النحر. وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْمُفِيضَ مِنْ عَرَفَةَ بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ مِنْ لَيْلَةِ النَّحْرِ مُدْرِكٌ لِلْحَجِّ غَيْرُ فَائِتِ الْحَجِّ، ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْمُفِيضَ مِنْ عَرَفَةَ الْخَارِجَ مِنْ حَدِّهَا قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ لَيْلَةَ النَّحْرِ فَائِتُ الْحَجِّ، إِذَا لَمْ يَرْجِعْ فَيَدْخُلَ حَدَّ عَرَفَةَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ مِنَ النَّحْرِ.
سیدنا عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا جبکہ آپ مزدلفہ میں تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں طے قبیلے کے پہاڑوں سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، میں نے اپنی سواری کو تھکا دیا ہے اور میں خود بھی تھکاوٹ سے چور ہوں۔ اللہ کی قسم میں نے کوئی ٹیلہ نہیں چھوڑ مگر اُس پر ٹھہرا ہوں تو کیا میرا حج ہوگیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ (فجر کی نماز پڑھ لی اور ہمارے ساتھ اس موقف (مزدلفہ) میں ٹھہرا رہا، جبکہ اس سے پہلے وہ عرفات سے دن یا رات کے وقت واپس لوٹا ہو تو اُس کا حج مکمّل ہوگیا اور اُس نے اپنے مناسک پورے کرلیے (اور اپنی میل کچیل دور کرلی)۔