صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
1977. ‏(‏236‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْبَيَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا خَطَبَ بِعَرَفَةَ رَاكِبًا لَا نَازِلًا بِالْأَرْضِ‏.‏
1977. اس بات کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اونٹنی پر سوار ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا تھا، آپ نے سواری سے اُتر کر زمین پر کھٹرے ہوکر خطبہ نہیں دیا تھا
حدیث نمبر: Q2809
Save to word اعراب

تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 2809
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن الوليد ، حدثنا يزيد . ح وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي ، حدثنا حاتم بن إسماعيل ، حدثنا جعفر بن محمد ، عن ابيه ، قال: دخلنا على جابر بن عبد الله ، فذكر الحديث، وقال: فاجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اتى عرفة حتى إذا زاغت الشمس امر بالقصواء، فرحلت له فركب حتى اتى بطن الوادي، فخطب الناس، فقال:" إن دماءكم، واموالكم، عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، الا وإن كل شيء من اهل الجاهلية موضوع تحت قدمي هاتين، ودماء الجاهلية موضوعة، واول دم اضعه دماؤنا: دم ابن ربيعة بن الحارث كان مسترضعا في بني سعد، فقتلته هذيل، وربا الجاهلية موضوع، واول ربا اضعه ربانا: ربا العباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع كله، اتقوا الله في النساء، فإنكم اخذتموهن بامانة الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله، وإن لكم عليهن ان لا يوطين فرشكم احدا تكرهونه، فإن فعلن فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف، وإني قد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به كتاب الله، وانتم مسئولون عني ما انتم قائلون؟" فقالوا: نشهد إنك قد بلغت رسالات ربك، ونصحت لامتك، وقضيت الذي عليك، فقال باصبعه السبابة يرفعها إلى السماء، وينكسها إلى الناس:" اللهم اشهد، اللهم اشهد" ، قال ابو بكر: قد بينت في كتاب النكاح ان قوله: لا يوطين فرشكم احدا تكرهونه، إنما اراد وطء الفراش بالاقدام، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تجلس على تكرمته إلا بإذنه، وفراش الرجل تكرمته هو، ولم يرد ما يتوهمه الجهال إنما اراد وطء الفروجحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ، فَرُحِلَتْ لَهُ فَرَكِبَ حَتَّى أَتَى بَطْنَ الْوَادِي، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلا وَإِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَدِمَاءَ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دِمَاؤُنَا: دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًّا أَضَعُهُ رِبَانَا: رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لا يُوطِينَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ، وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي مَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟" فَقَالُوا: نَشْهَدُ إِنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالاتِ رَبِّكَ، وَنَصَحْتَ لأُمَّتِكَ، وَقَضَيْتَ الَّذِي عَلَيْكَ، فَقَالَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ، وَيُنَكِّسُهَا إِلَى النَّاسِ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ بَيَّنْتُ فِي كِتَابِ النِّكَاحِ أَنَّ قَوْلَهُ: لا يُوطِينَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، إِنَّمَا أَرَادَ وَطْءَ الْفِرَاشِ بِالأَقْدَامِ، كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لا تَجْلِسْ عَلَى تَكْرُمَتِهِ إِلا بِإِذْنِهِ، وَفِرَاشُ الرَّجُلِ تَكْرِمَتُهُ هُوَ، وَلَمْ يَرِدْ مَا يَتَوَهَّمُهُ الْجُهَّالُ إِنَّمَا أَرَادَ وَطْءَ الْفُرُوجِ
جناب جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر مکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مزدلفہ اور وادی عرفہ وغیرہ میں رکے بغیر) عرفات پہنچ گئے، جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے اپنی اونٹنی قصواء پر کجاوہ رکھنے کا حُکم دیا تو اُس پر کجاوہ رکھ دیا گیا۔ پھر آپ اُس پر سوار ہوکر وادی عرفات کے وسط میں تشریف لائے تو لوگوں سے خطاب فرمایا، آپ نے فرمایا: بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس شہر میں اس مہینے میں تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے۔ خبردار، جاہلیت میں کئے گئے عمل بھی رائیگاں ہیں۔ میں اپنے مقتولوں میں سے سب سے پہلے ابن ربیعہ بن حارث کا قتل معاف کرتا ہوں، وہ بنی سعد میں دودھ پیتے تھے تو قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اسے قتل کر دیا تھا۔ جاہلیت کا تمام سود بھی کالعدم ہے میں اپنے خاندان کے سود میں سے سب سے پہلے سیدنا عباس بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ) کا سود (جو لوگوں کے ذمے ہے) سب معاف کرتا ہوں۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ تم نے اللہ کی امانت کے ساتھ انہیں حاصل کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے کلمے کے ساتھ ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر تمہارے ناپسندیدہ شخص کو نہ بیٹھنے دیں، اگر وہ یہ کام کریں تو تم اُنہیں ہلکی پھکی سزا دے سکتے ہو، اُن کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اُنہیں دستور کے مطابق کھانا پینا اور لباس مہیا کرو۔ اور بیشک میں تمہارے اندر ایک ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ تم جب تک اس پر عمل پیرا رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ اور (قیامت کے روز) تم سے میرے بارے میں پوچھا جائیگا تو تم کیا جواب دو گے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب کے تمام پیغامات پہنچا دیے ہیں۔ اور اپنی اُمّت کی خیر خواہی کا حق بھی خوب ادا کیا ہے، اور آپ نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کردی ہے۔ تو آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف بلند کرکے سامعین پر جھکاتے ہوئے فرمایا: اے اللہ، گواہ ہو جا۔ اے اللہ، گواہ ہو جا۔ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے کتاب النکاح میں وضاحت کر دی ہے کہ آپ کا فرمان تمہارے بستر پر تمہارے ناپسندیدہ شخص کو نہ بیٹھنے دیں کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر کو کسی ناپسندیدہ اشخاص کے قدموں تلے نہ روندیں۔ کسی کو اس پر نہ بیٹھنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم کسی شخص کی خصوصی نشست پر اُس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو۔ آدمی کا بستر بھی اس کی خصوصی نشست گاہ ہوتا ہے۔ آپ کے اس فرمان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تمہارے کسی ناپسندیدہ شخص سے ہمبستری نہ کریں۔ جیسا کہ بعض جہلاء کو وہم ہوا ہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.