وان معنى قوله صلى الله عليه وسلم في خبر ابن عمر: على المملوك، معناه: عن المملوك، لا انها واجبة على المملوك كما زعم من قال: إن المماليك يملكون. وَأَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ: عَلَى الْمَمْلُوكِ، مَعْنَاهُ: عَنِ الْمَمْلُوكِ، لَا أَنَّهَا وَاجِبَةٌ عَلَى الْمَمْلُوكِ كَمَا زَعَمَ مَنْ قَالَ: إِنَّ الْمَمَالِيكَ يَمْلِكُونَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر آزاد، غلام، مرد اور عورت کی طرف سے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو صدقہ فطرفرض کیا۔ پھر لوگوں نے نصف صاع گندم کو ایک صاع (کھجور یا جَو) قراردے دیا۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب صدقہ فطر ادا کرتے تو کھجور ہی سے ادا ئیگی کرتے سوائے ایک سال کے اس سال کھجور کمیاب ہوگئی تو انہوں نے جَو سے صدقہ ادا کیا۔ جناب ایوب کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر کا ایک صاع کب ادا کرتے تھے؟ امام نافع نے جوا ب دیا کہ جب صدقہ فطر وصول کرنے والا عامل وصولی کے لئے بیٹھ جاتا۔ میں نے پوچھا تو وصولی کا عامل کب بیٹھتا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے بیٹھتا تھا۔