والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اوجب الصدقة في البقر في سوائمها دون عواملهاوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَوْجَبَ الصَّدَقَةَ فِي الْبَقَرِ فِي سِوَائِمِهَا دُونَ عَوَامِلِهَا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بکریوں کی زکوٰۃ ہر چالیس بکریوں میں ایک بکری زکوٰۃ ہے اور اگر صرف اُنتالیس بکریاں ہوں تو پھر تم پر کوئی زکوٰۃ فرض نہیں ہے اور چالیس میں ایک بکری فرض ہے۔ پھر ایک سو بیس تک تم پر زکوٰۃ نہیں ہے لیکن اگر اس سے بڑھ جائیں تو پھر دو سو تک دو بکریاں زکوٰۃ ہے اور اگر دوسو سے تعداد بڑھ جائے تو تین سو تک تین بکریاں فرض ہیں۔ پھر ہر سو بکریوں میں ایک بکری زکوٰۃ ہے اور تیس گائیوں میں ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی زکوٰۃ ہے اور چالیس گائیوں میں دو سالہ بچھڑا زکوٰۃ ہے اور کام کرنے والے بیل یا گائیوں میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں جناب ابوعبید کہتے ہیں کہ تبیع سے مراد بچھڑے کی عمر نہیں ہے بلکہ یہ اس کی صفت ہے اور اسے تبیع اس وقت کہتے ہیں جب وہ چرنے کے لئے اپنی ما ں کے پیچھے جانے پر قادر ہو جاتا ہے اور بچھڑا چرنے کے لئے اپنی ماں کی اتباع اُسی وقت کرتا ہے جب اُس کی عمر ایک سال مکمّل ہو جاتی ہے۔