والدليل على ضد قول من جهل معنى قوله تعالى: [والذين يكنزون الذهب والفضة الآية] [التوبة: 34]، فزعم ان هذه الآية إنما نزلت في الكفار لا في المؤمنين، والنبي المصطفى صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان هذه الآية إنما نزلت في المؤمنين لا في الكفار، إذ محال ان يقال: يعذب الكفار إلى وقت كذا وكذا، ثم يرى سبيله، إما إلى الجنة، وإما إلى النار؛ لان الكافر يكون مخلدا في النار، لا يطمع ان يخلى سبيله بعد تعذيب بعض العذاب قبل الفصل بين الناس، ثم يخلى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار، بل يخلد في النار بعد الفصل بين الناسوَالدَّلِيلُ عَلَى ضِدِّ قَوْلِ مَنْ جَهِلَ مَعْنَى قَوْلِهِ تَعَالَى: [وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ الْآيَةَ] [التَّوْبَةِ: 34]، فَزَعَمَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّمَا نَزَلَتْ فِي الْكُفَّارِ لَا فِي الْمُؤْمِنِينَ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّمَا نَزَلَتْ فِي الْمُؤْمِنِينَ لَا فِي الْكُفَّارِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يُقَالَ: يُعَذَّبُ الْكُفَّارُ إِلَى وَقْتِ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يُرَى سَبِيلَهُ، إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ؛ لِأَنَّ الْكَافِرَ يَكُونُ مُخَلَّدًا فِي النَّارِ، لَا يَطْمَعُ أَنْ يُخَلَّى سَبِيلُهُ بَعْدَ تَعْذِيبِ بَعْضِ الْعَذَابِ قَبْلَ الْفَصْلِ بَيْنَ النَّاسِ، ثُمَّ يُخَلَّى سَبِيلُهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، بَلْ يُخَلَّدُ فِي النَّارِ بَعْدَ الْفَصْلِ بَيْنَ النَّاسِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اُسے (قیامت کے دن) اس کے مال سمیت لایا جائے گا۔ پھر اس مال کی تختیاں (بناکر انہیں) جہنّم کی آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر ان تختیوں سے اس کے پہلو، پیشانی اور کمر پر داغ لگائے جائیں گے۔ حتّیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیگا۔ (اسے یہ سزا) ایک ایسے دن میں (مسلسل دی جائے گی) جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوگی۔ پھر وہ اپنا راستہ جنّت یا جہنّم کی طرف دیکھ لیگا اور جو بھی شخص اپنے اونٹوں کی زکوٰۃ نہیں دیتا تو اُسے اُس کے اونٹوں سمیت لایا جائیگا جو خوب موٹے تازہ ہوںگے۔ اُسے ایک وسیع ہموار میدان میں اوندھے منہ لٹایا جائیگا۔ پھر وہ اونٹ اسے روندیںگے، جب آخری اونٹ گزر جائے گا تو پہلا اونٹ واپس لایا جائیگا۔ حتّیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیگا۔ (اس کے ساتھ یہ سلوگ) سارا دن ہوتا رہے گا جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے پھر وہ اپنا راستہ جنّت یا جہنّم کی طرف دیکھ لیگا اور جو بھی شخص اپنی بکریوں کی زکوٰۃ نہیں دیتا تو اُسے اُس کی بکریوں سمیت لایا جائے گا جو خوب موٹی تازی ہوںگی تو اُس شخص کو ایک وسیع ہموار میدان میں اُلٹا لٹایا جائیگا اور وہ بکریاں اُس کے اوپر چلیں گی۔ جب بھی آخری بکری گزر جائیگی تو پہلی کو دوبارہ لایا جائیگا۔ وہ بکریاں اُسے اپنے کھروں کے ساتھ روندیںگی اور سینگوں سے ٹکریں ماریںگی۔ اُن میں کوئی بکری مڑے سینگوں والی یا بغیر سینگوں کے نہیں ہوگی۔ حتّیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمادے گا۔ (اُسے یہ عذاب مسلسل) پورا دن ہوتا رہیگا جس کی مقدار تمھاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال ہوگی۔ پھر وہ اپنا راستہ جنّت یا جہنّم کی طرف دیکھے گا۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گھوڑوں کے بارے میں کیا حُکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر و برکت لکھی ہوئی ہے اور گھوڑے تین قسم کے ہیں۔ ایک قسم آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہے۔ ایک آدمی کے لئے بچاؤ کا باعث ہے اور ایک آدمی کے لئے عذاب کا باعث ہے۔“ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ”اے اللہ کے رسول، گدھوں کے بارے میں کیا حُکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں مجھ پر کوئی حُکم نازل نہیں فرمایا سوائے اس جامع منفرد آیت کے «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ »[ سورة الزلزلة: 8، 7 ]”جس شخص نے ذرہ بھر بھلائی کی وہ اسے دیکھ لیگا اور جس نے ذرہ بھر بُرائی کی وہ بھی اسے دیکھ لیگا۔“”الجلحاء“ وہ بکری جس کے سینگ نہ ہوں۔ ”العقصاء“ جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے یا مڑے ہوئے ہوں۔