حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا ايوب ، عن عكرمة بن خالد ، عن ابي بكر بن عبد الرحمن ، قال: إني لاعلم الناس بهذا الحديث، بلغ مروان ان ابا هريرة يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. وحدثنا بندار , حدثنا يحيى , عن ابن جريج , حدثني عبد الملك بن ابي بكر , عن ابيه ، انه سمع ابا هريرة، يقول: من اصبح جنبا فلا يصوم. قال: فانطلق ابو بكر، وابوه عبد الرحمن حتى دخل على ام سلمة ، وعائشة , وكلاهما قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح جنبا ثم يصوم" . فانطلق ابو بكر , وابوه حتى اتيا مروان , فحدثاه، فقال: عزمت عليكما لما انطلقتما إلى ابي هريرة , فحدثاه , فقال: اهما قالتا لكما؟ قالا: نعم. قال: هما اعلم. إنما انبانيه الفضل. قال ابو بكر: قال ابو هريرة احال الخبر على مليء صادق بار في خبره , إلا ان الخبر منسوخ , لا انه وهم , لا غلط , وذلك ان الله تبارك وتعالى عند ابتداء فرض الصوم على امة محمد صلى الله عليه وسلم كان حظر عليهم لا الاكل والشرب في ليل الصوم بعد النوم , كذلك الجماع , فيشبه ان يكون خبر الفضل بن عباس: من اصبح وهو جنب فلا يصم , في ذلك الوقت قبل ان يبيح الله الجماع إلى طلوع الفجر , فلما اباح الله تعالى الجماع إلى طلوع الفجر كان للجنب إذا اصبح قبل ان يغتسل ان يصوم ذلك اليوم , إذ الله عز وجل لما اباح الجماع إلى طلوع الفجر كان العلم محيطا بان المجامع قبل طلوع الفجر يطرقه فاعلا ما قد اباحه الله له في نص تنزيله , ولا سبيل لمن هذا فعله إلى الاغتسال إلا بعد طلوع الفجر , ولو كان إذا ادركه الصبح قبل ان يغتسل لم يجز له الصوم، كان الجماع قبل طلوع الفجر باقل وقت يمكن الاغتسال فيه محظورا غير مباح. وفي إباحة الله عز وجل الجماع في جماع الليل بعد ما كان محظورا بعد النوم، بان وثبت ان الجنابة الباقية بعد طلوع الفجر بجماع في الليل مباح لا يمنع الصوم. فخبر عائشة، وام سلمة رضي الله تعالى عنهما في صوم النبي صلى الله عليه وسلم بعد ما كان يدركه الصبح جنبا ناسخ لخبر الفضل بن عباس ؛ لان هذا الفعل من النبي صلى الله عليه وسلم يشبه ان يكون بعد نزول إباحة الجماع إلى طلوع الفجر. فاسمع الآن خبرا عن كاتب الوحي للنبي صلى الله عليه وسلم بصحة ما تاولت خبر الفضل بن عباس رحمه اللهحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: إِنِّي لأَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، بَلَغَ مَرْوَانَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ , حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ , عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فَلا يَصُومْ. قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ، وَأَبُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، وَعَائِشَةَ , وَكِلاهُمَا قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا ثُمَّ يَصُومُ" . فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ , وَأَبُوهُ حَتَّى أَتَيَا مَرْوَانَ , فَحَدَّثَاهُ، فَقَالَ: عَزَمْتُ عَلَيْكُمَا لَمَا انْطَلَقْتُمَا إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ , فَحَدِّثَاهُ , فَقَالَ: أَهُمَا قَالَتَا لَكُمَا؟ قَالا: نَعَمْ. قَالَ: هُمَا أَعْلَمُ. إِنَّمَا أَنْبَأَنِيهِ الْفَضْلُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَحَالَ الْخَبَرَ عَلَى مَلِيءٍ صَادِقٍ بَارٍّ فِي خَبَرِهِ , إِلا أَنَّ الْخَبَرَ مَنْسُوخٌ , لا أَنَّهُ وَهْمٌ , لا غَلَطَ , وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عِنْدَ ابْتِدَاءِ فَرْضِ الصَّوْمِ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ حَظَرَ عَلَيْهِمُ لا الأَكْلَ وَالشُّرْبَ فِي لَيْلِ الصَّوْمِ بَعْدَ النَّوْمِ , كَذَلِكَ الْجِمَاعَ , فَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ خَبَرُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: مَنْ أَصْبَحَ وَهُوَ جُنُبٌ فَلا يَصُمْ , فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ قَبْلَ أَنْ يُبِيحَ اللَّهُ الْجِمَاعَ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ , فَلَمَّا أَبَاحَ اللَّهُ تَعَالَى الْجِمَاعَ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ كَانَ لِلْجُنُبِ إِذَا أَصْبَحَ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ أَنْ يَصُومَ ذَلِكَ الْيَوْمَ , إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَمَّا أَبَاحَ الْجِمَاعَ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ كَانَ الْعِلْمُ مُحِيطًا بِأَنَّ الْمُجَامِعَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ يَطْرُقُهُ فَاعِلا مَا قَدْ أَبَاحَهُ اللَّهُ لَهُ فِي نَصِّ تَنْزِيلِهِ , وَلا سَبِيلَ لِمَنْ هَذَا فِعْلُهُ إِلَى الاغْتِسَالِ إِلا بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ , وَلَوْ كَانَ إِذَا أَدْرَكَهُ الصُّبْحُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ لَمْ يَجُزْ لَهُ الصَّوْمُ، كَانَ الْجِمَاعُ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ بِأَقَلَّ وَقْتٍ يُمْكِنُ الاغْتِسَالُ فِيهِ مَحْظُورًا غَيْرَ مُبَاحٍ. وَفِي إِبَاحَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الْجِمَاعَ فِي جِمَاعِ اللَّيْلِ بَعْدَ مَا كَانَ مَحْظُورًا بَعْدَ النَّوْمِ، بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الْجَنَابَةَ الْبَاقِيَةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ بِجِمَاعٍ فِي اللَّيْلِ مُبَاحٌ لا يَمْنَعُ الصَّوْمَ. فَخَبَرُ عَائِشَةَ، وَأَمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا كَانَ يُدْرِكُهُ الصُّبْحُ جُنُبًا نَاسِخٌ لِخَبَرِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ؛ لأَنَّ هَذَا الْفِعْلَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ نُزُولِ إِبَاحَةِ الْجِمَاعِ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ. فَاسْمَعِ الآنَ خَبَرًا عَنْ كَاتِبِ الْوَحْيِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصِحَّةِ مَا تَأَوَّلْتُ خَبَرَ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَحِمَهُ اللَّهُ
جناب ابوبکر بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ بیشک میں اس روایت کو سب لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ مروان کو یہ بات پہنچی کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کرتے ہیں۔ جناب ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی تو اس کا روزہ نہیں ہے۔ (وہ روزہ نہیں رکھ سکتا) چنانچہ ابوبکر اور اُن کے والد سیدہ ام سلمہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے (اور مسئلہ پوچھا تو) دونوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے (پھر روزہ رکھ لیتے تھے) پھر ابوبکر اور اُن کے والد مروان کے پاس آئے اور اُنہیں صورت حال بیان کی تو اُس نے کہا کہ میں تمہیں پُختہ حُکم دیتا ہوں کہ تم دونوں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور اُنہیں یہ صورت حال بتاؤ۔ (وہ گئے اور اصل واقعہ بیان کیا) تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا دونوں اُمہات المؤمنین نے یہ بات فرمائی ہے؟ اُنہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ دونوں بہتر جانتی ہیں مجھے تو سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی تھی۔ (کہ جنا بت کی حالت میں صبح ہو جائے تو پھر روزہ نہیں رکھا جاسکتا) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کا حوالہ ایک معزز اور سچے شخص کی طرف کیا جو اپنی روایت کے بیان میں صادق ہے (یعنی سیدنا فضل رضی اللہ عنہ) مگریہ روایت منسوخ ہو چکی ہے۔ یہ بات نہیں کہ انہیں وہم ہوا ہے یا انہیں روایت بیان کرنے میں غلطی لگی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں اُمّت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر روزے فرض کیے تو اُن کے لئے روزے کی رات سونے کے بعد کھانا، پینا اور جماع کرنا ممنوع تھا۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت جس شخص نے جناب کی حالت میں صبح کرلی تو وہ روزہ نہ رکھے کا تعلق اس وقت سے ہو جبکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے طلوع فجر تک جماع کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے طلوع فجرتک جماع کرنے کی اجازت دے دی تو جنبی شخص کو اجازت مل گئی کہ اگر وہ حالت جنابت میں صبح کرے تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے طلوع فجر تک جماع کرنے کی اجازت دے دی تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ طلوع فجر سے چند لمحے پہلے مجامعت کرنے والے شخص نے ایک جائز کام کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی نص میں جائز قراردیا ہے۔ اور جو شخص یہ کام (طلوع فجر سے کچھ پہلے جماع) کرے تو وہ طلوع فجر کے بعد ہی غسل کر سکے گا۔ اور اگر بات یہ ہوتی کہ غسل کرنے سے پہلے صبح ہو جانے کی صورت میں اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہ ہوتا تو پھر طلوع فجر سے پہلے اس کم سے کم وقت میں جس میں غسل کرنا ممکن ہے۔ اس میں جماع کرنا منع ہوتا اور جائز نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے ساری رات میں جماع کرنے کی اجازت دینے میں جبکہ شروع میں سوجانے کے بعد جماع کرنا ممنوع تھا، اس بات کا ثبوت اور وضاحت ہے کہ رات کے وقت جماع کرنے سے طلوع فجر کے وقت باقی رہنے والی جنابت روزہ رکھنے میں رکا وٹ نہیں ہے۔ اس طرح سیدہ عائشہ اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صبح کرنے کے بعد روزہ رکھ لیتے تھے، یہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے لئے ناسخ ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل اس بات کے زیادہ مشابہ ہے کہ یہ طلوع فجر تک جماع کرنے کی اباحت و اجازت کے بعد کا ہوگا۔ میں نے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی جو تاویل کی ہے اس کے صحیح ہونے کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کا تب وحی سے سنیے۔