نا ابو هاشم زياد بن ايوب ، ويوسف بن موسى ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، نا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سجد سجدتي السهو بعد الكلام" . قال ابو بكر: إن كان اراد ابن مسعود بقوله بعد الكلام قوله لما صلى الظهر خمسا، فقال: ازيد في الصلاة؟ فقال: وما ذاك؟، فهذا الكلام من النبي صلى الله عليه وسلم على معنى كلامه في قصة ذي اليدين، وإن كان اراد الكلام الذي في الخبر الآخر لما صلى فزاد او نقص، فقيل له، فقال" إنما انا بشر انسى كما تنسون" ؛ فإن هذه لفظة قد اختلف الرواة في الوقت الذي تكلم بها النبي صلى الله عليه وسلم، فاما الاعمش في خبره، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، وابو بكر النهشلي في خبره، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه، عن عبد الله، ذكر ان هذا الكلام كان منه قبل سجدتي السهو، واما منصور بن المعتمر، والحسن بن عبيد الله فإنهما ذكرا في خبرهما عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله ان هذا الكلام كان منه بعد فراغه من سجدتي السهو فلم يثبت بخبر لا مخالف له ان النبي صلى الله عليه وسلم تكلم وهو عالم ذاكر بان عليه سجدتي السهو، وقد ثبت انه صلى الله عليه وسلم تكلم ساهيا بعد السلام وهو لا يعلم انه قد سها سهوا يجب عليه سجدتا السهو، ثم سجد سجدتي السهو بعد كلامه ساهيانَا أَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، نَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَ الْكَلامِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنْ كَانَ أَرَادَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِقَوْلِهِ بَعْدَ الْكَلامِ قَوْلَهُ لَمَّا صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقَالَ: أَزِيدَ فِي الصَّلاةِ؟ فَقَالَ: وَمَا ذَاكَ؟، فَهَذَا الْكَلامُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَعْنَى كَلامِهِ فِي قِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ، وَإِنْ كَانَ أَرَادَ الْكَلامَ الَّذِي فِي الْخَبَرِ الآخَرِ لَمَّا صَلَّى فَزَادَ أَوْ نَقَصَ، فَقِيلَ لَهُ، فَقَالَ" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ" ؛ فَإِنَّ هَذِهِ لَفْظَةٌ قَدِ اخْتَلَفَ الرُّوَاةُ فِي الْوَقْتِ الَّذِي تَكَلَّمَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّا الأَعْمَشُ فِي خَبَرِهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وأَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ فِي خَبَرِهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ذَكَرَ أَنَّ هَذَا الْكَلامَ كَانَ مِنْهُ قَبْلَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ، وَأَمَّا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، وَالْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَإِنَّهُمَا ذَكَرَا فِي خَبَرِهِمَا عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ هَذَا الْكَلامَ كَانَ مِنْهُ بَعْدَ فَرَاغِهِ مِنْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ فَلَمْ يَثْبُتْ بِخَبَرٍ لا مُخَالِفَ لَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمَ وَهُوَ عَالِمٌ ذَاكِرٌ بِأَنَّ عَلَيْهِ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمَ سَاهِيًا بَعْدَ السَّلامِ وَهُوَ لا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ سَهَا سَهْوًا يَجِبُ عَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَ كَلامِهِ سَاهِيًا
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات چیت کر لینے کے بعد سہو کے دو سجدے کیے امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں اگر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام کر لینے کے بعد سہو کے سجدے کیے، سے مراد وہ کلام ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعات پڑھا دی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے عرض کی کہ کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (اضافہ) کیا ہے؟“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ گفتگو ذوالیدین کے واقعے میں مذکور گفتگو کے ہم معنی ہے۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصل صورت حال کی تحقیق فرما رہے ہیں) اور اگر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد وہ کلام ہے جو دوسری روایت میں آئی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور اس میں اضافہ کر دیا یا کمی کر دی تھی، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بیشک میں بھی ایک انسان ہوں، میں بھی بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو“ تو ان الفاظ کے بارے میں راویوں کا اختلاف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو کب فرمائی۔ ابوبکر نہشلی اپنی سند سے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو سہو کے دو سجدے کرنے سے پہلے فرمائی۔ جبکہ منصور بن معتمر اور حسن بن عبیداللہ دونوں اپنی سند سے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلام سہو کے دوسجدے کر نے کے بعد فرمایا۔ چنانچہ کسی ایسی روایت سے جس روایت کی مخالف روایت مو جو د نہ ہو، یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلام اس حال میں فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخوبی علم تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سہو کے دو سجدے واجب ہیں - جبکہ یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد بھول کر گفتگو فرمائی، اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول چکے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سہو کے دو سجدے واجب ہیں، بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر کلام کر لینے کے بعد سہو کے دو سجدے کیے۔