ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
یحیٰی بن یعمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی کہ اے ابو عبدالرحمٰن، کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ تقدیر (کوئی چیز) نہیں۔ انہوں نے پوچھا، کیا ہمارے ہاں (اس دور میں) ان لوگوں میں سے کوئی موجود ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں (موجود ہیں)۔ انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان سے ملو تو میری طرف سے انہیں یہ پیغام دینا کہ ابن عمر اللہ تعالیٰ کی طرف تم سے بیزاری اور قطع تعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور تم ان سے بیزار ہو۔ پھر فرمایا کہ مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس اثنا میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک ایک آدمی آیا۔ اس پر سفر کے آثار تھے اور شہر کا رہنے والا نہیں تھا۔ وہ تیز تیز چلتا ہوا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ تو اس نے پوچھا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسلام کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، تو نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، بیت اللہ کا حج کرے، عمرہ ادا کرے، غسل جنابت کرے، اور یہ کہ تو مکمل وضو کرے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے۔“ اس نے کہا کہ جب میں یہ (فرائض) ادا کر لو ں تو میں مسلمان ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (تم یہ فرائض ادا کر کے مسلمان بن جاؤ گے)“ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ انہوں نے ایمان، احسان اور قیامت کے بارے میں سوال کے متعلق مکمل حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الايمان، رقم الحديث: 8۔ سنن ترمذي، حديث: 2030۔ والنسائي فى سننه الكبري 97/8، رقم: 5883، ابوداود: 4695، سنن ابن ماجه: 62۔ مسند احمد، ابن حبان: 1731۔ الدار قطني 207۔ البيهيقي فى سننه الكبرى: 8537»
الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت قال فعجبنا له يسأله ويصدقه قال فأخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم ال
ما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشره قال فما الإسلام قال شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان قال فما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه ف
الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت قال فعجبنا له يسأله ويصدقه قال فأخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خي
ما الإسلام قال شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وحج البيت فقال صدقت فعجبنا منه يسأله ويصدقه ثم قال يا محمد ما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته ورسله وكتبه واليوم الآخر والقدر خيره وشره قال صدقت فعجبن
الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وأن تقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج البيت وتعتمر وتغتسل من الجنابة وأن تتم الوضوء وتصوم رمضان قال فإذا فعلت ذلك فأنا مسلم قال نعم قال صدقت
أخبرني عن الإسلام قال أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت فعجبنا إليه يسأله ويصدقه ثم قال أخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآ
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 1
فوائد:
➊ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا صحت ایمان کی شرط ہے اور اس پر ایمان لائے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا، لہذا تقدیر کا سرے سے انکار، تقدیر کی غلط تقسیم (یعنی خیر کا مالک اللہ تعالیٰ کو قرار دینا اور شر کا خالق شیطان لعین کو قرار دینا) یا مسئلہ تقدیر میں موشگافیاں کرنا ایمان کے منافی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے براءت کا اعلان کیا ہے اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس امت کے مجوسی قرار دیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الْقَدَرِيَّةٌ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، إِنْ مَرِضُوا فَلا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ» قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت کے مجوسی ہیں اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مر جائیں تو ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرو۔ [ابو داود: 4691، حاكم: 117/1، اسناده حسن]
➋ توحید و رسالت کا اقرار، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور صاحب استطاعت شخص کا حج کرنا یہ پانچ ارکان اسلام ہیں جن پر اسلام کی عمارت استوار ہے، ان میں سے کسی ایک رکن کے انکار سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، لٰہذا صحت اسلام کے لیے ان ارکان پر دائمی پابندی شرط ہے۔
➌ عمرہ ارکان اسلام میں شامل نہیں، نیز اس کی فرضیت کے بارے بھی اختلاف ہے اور راجح قول کے مطابق عمرہ ادا کرنا مستحب عمل ہے واجب نہیں۔
➍ صحت نماز کے لیے وضو کا مکمل ہونا شرط ہے اور جیسے بغیر وضو کے نماز ادا نہیں ہوتی اسی طرح فریضہ وضو کے لیے وضو کا مکمل کرنا لازم ہے اور وضو کی ناتمامی کی صورت میں بھی نماز ادا نہیں ہوتی، نیز اتمام وضو کی دو شرطیں ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
1. سر کے مسح سمیت تمام اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا لازم، ان میں سے کوئی ایک فرض چھوٹنے سے وضو نامکمل رہتا ہے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: «رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيْقِ، تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ الْعَصْرِ فَتَوَضَّوا، وَهُمْ عُجَالٌ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ وَأَعْقَابُهُمْ بِيضٌ تَلُوحُ، لَمْ يَمَسُّهَا الْمَاءُ . فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ .»”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مکہ سے مدینہ واپس روانہ ہوئے حتٰی کہ جب ہم راستے میں ایک پانی کے قریب پہنچے تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے وقت (نماز عصر کی ادائیگی کے لیے) عجلت کی اور انہوں نے جلد بازی میں وضو کیا چنانچہ جب ہم ان تک پہنچے تو ان کی (خشک) ایڑیاں چمک رہی تھیں، جنہیں پانی نہیں پہنچا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (وضو میں خشک رہ جانے والی) ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے۔ (تم وضو مکمل کیا کرو)۔ [مسلم: 241]
اسی طرح عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَيْلٌ لِلاعْقَابِ مِنَ النَّارِ، وَبُطُونِ الْأَقْدَامِ مِنَ النَّارِ»”وضو میں خشک رہ جانے والی ایڑھیوں اور پاؤں کے اندرونی (درمیانی) حصوں کے لیے آگ سے ہلاکت ہے۔“[صحيح الجامع الصغير: 7133، صحيح]
2. وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا صحت وضو کی شرط ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا صَلَاةَ لِمَنْ لا ُوضُوْءَ لَهُ، وَلا وَضُوْءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللهَ عَلَيْهِ» بے وضو شخص کی نماز نہیں اور جس نے وضو کرتے «بسم الله» اللہ کا نام نہ لیا اس کا وضو نہیں ہے۔ [ابوداؤد: 101، ابن ماجه: 399، صحيح الجامع: 7514، صحيح]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 1
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 2
´ایمان قول و عمل کا نام ہے` «عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ . . .» ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص آ موجود ہوا جس کے کپڑے بہت صاف و شفاف اور اس کے بال نہایت ہی سیاہ تھے اس پر کوئی سفر کی نشانی نہیں دیکھی، پائی جاتی تھی اور نہ ہم لوگوں میں سے کوئی انہیں پہچانتا ہی تھا، یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گیاکہ آپ کے گھٹنے سے اپنے گھٹنے ملا دیے اور اپنے دونوں ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں زانوئے مبارک پر رکھ کر یوں کہنا شروع کیا کہ اے محمد! آپ مجھے یہ خبر دیجئے کہ اسلام کیا ہے؟ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 2]
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 93]
فقہ الحدیث: ➊ یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے، محذوفہ حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں سے برأت کا اعلان کیا جو تقدیر کے منکر تھے اور فرمایا: ”اگر ان (منکرین تقدیر) میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی (اللہ کی راہ) میں خرچ کر دے تو اللہ اسے قبول نہیں کرے گا۔“ معلوم ہوا کہ (بدعت کبرٰی کے) مبتدعین کے اعمال باطل ہوتے ہیں۔ ➋ ایمان قول و عمل کا نام ہے، نماز رمضان کے روزے اور حج، چاروں اعمال اور ایمان اور ارکان ایمان میں سے ہیں۔ ➌ قیامت آنے کی صحیح تاریخ اور وقت صرف اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے، اللہ کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے غیب کی جو خبریں بیان فرمائیں، وہ سب وحی الہٰی کے ذریعے سے بتائیں تھیں۔ صحابہ کرام بھی غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ جبرائیل علیہ السلام کو پہلے ہی پہچان لیتے۔ ➍ فرشتے انسانی شکل میں تمثل کر کے دنیا میں آتے رہے ہیں، اگرچہ ان کی اصل شکل و صورت اس کے علاوہ ہے اور فرشتوں کے پر بھی ہوتے ہیں۔ ➎ یہ حدیث بہت زیادہ فوائد پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کے کبار علماء میں سے شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ نے اس حدیث مبارکہ کہ شرح میں (79 صفحات کی) ایک زبردست مفید کتاب «شرح حديث جبريل فى تعليم الدين» لکھی ہے جس میں انہوں نے بہت سے فوائد جمع کر لیے ہیں، جزاہ اللہ خیرا۔
تنبیہ: یہ کتاب میرے اردو ترجمے اور تحقیق و فوائد کے ساتھ مطبوع ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ حدیث اس لائق ہے کہ اسے ام السنۃ (سنت کی ماں) کہا جائے، کیونکہ اس میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی) سنت کے (بہت سے) جملوں کا علم ہے۔“[فتح الباری125/1] ➏ نصوص شرعیہ سے ثابت ہے کہ ہر مکلف مسلمان پر دن رات میں پانچ نمازیں، ہر سال رمضان کے روزے ہر سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ اور عمر بھر میں صرف ایک دفعہ حج فرض ہے۔
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 93
´فرشتے کا انسانی شکل میں آنا ` «. . . فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ . . .» ”۔۔۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے تم کو تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔۔۔“[صحيح مسلم/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]
فوائد: نماز کے بعد ذکر کے سلسلے میں حدیث زيد بن ثابت [سنن نسائي: 1351]، اذان کے سلسلے میں حدیث عبداللہ بن زید بن عبدربہ [سنن ابي داؤد: 499 و اسناده حسن] اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے فرشتے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بذریعہ وحی) اس کی تصدیق فرما دیتے تھے۔ واضح رہے کہ شریعت میں غیر نبی کے خواب قطعاً حجت نہیں ہیں، اِلاَّ یہ کہ دور نبوی میں جن خوابوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصدیق فرمائی ہو، علاوہ ازیں کسی خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا جبکہ بعض الناس کے مسالک و مذاہب کی بنیاد ہی خوابوں پر ہے جو صریحاً باطل ہے۔
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 6
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4994
´ایمان اور اسلام کی تعریف۔` ابوہریرہ اور ابوذر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان اس طرح بیٹھتے تھے کہ اجنبی آتا تو آپ کو پہچان نہیں پاتا جب تک پوچھ نہ لیتا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش ظاہر کی کہ ہم آپ کے بیٹھنے کی جگہ بنا دیں تاکہ جب کوئی اجنبی شخص آئے تو آپ کو پہچان لے، چنانچہ ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا جس پر آپ بیٹھتے تھے۔ ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر بیٹھے تھے، اتنے میں ایک شخص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 4994]
اردو حاشہ: (1)”گھٹنوں پر رکھ دیا“ بطور احترام آپ کے گھٹنے چھوئے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ (2)”بھیڑ بکریوں کے چرواہے“ عرب ماحول میں بھیڑ بکریوں کے چرواہوں کو فقیر اور ذلیل خیا ل کیا جاتا ہے، البتہ اونٹوں والوں کو معزز سمجھتے تھے۔یا اس لیے کہ چرواہے عام طور پر غلام اور نوکر ہوتے تھے۔ عربی میں لفظ الرعاء البھم استعمال فرمایا گیا ہے۔ اس کےکئی اور معنی بھی کیے گئے ہیں، مثلا:کالے رنگ کے چرواہے یا غیر معروف چرواہے یا قلاش چرواہے وغیرہ۔ (3)”پہچان نہیں سکا تھا“ آنے والے کا انداز ہی ایسا حیران کن تھا کہ آخر وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اندازہ نہ ہوسکا۔ وہ تواس کے غائب ہو جانے سے معلوم ہواکہ یہ تو فرشتہ تھا۔ (4)”دحیہ کلبی کی صورت میں“ یہ الفاظ شاذ ہیں اور سیاق حدیث کے خلاف ہیں۔ اصل الفاظ وہی ہیں جو حضرت عمر ؓکی روایت میں ہیں لا یعرفہ منا احد کہ اسے ہم میں سے کوئی بھی پہچانتا نہیں تھا۔ اس وضاحت سے معلوم ہو اکہ یہ الفاظ ”جو دحیہ کلبی کی صورت میں آئے تھے“ درست نہیں کیونکہ اگر وہ حضرت دحیہؓ کی صورت میں آئے ہوتے، پھر تو پہچانے جاتے۔ دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی ٰ شرح سنن النسائی:37/229)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4994
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4695
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔` یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4695]
فوائد ومسائل: 1: بالخصوص فتنوں کے دنوں میں ضروری ہے کہ انسان علمائے راسخین سے رابطے میں رہے ان سے استفادہ کرکے ہی وہ اپنے ایمان وعمل کو محفوظ رکھ سکتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ اس سلسلے کی اولین کڑی ہیں۔ 2: الولا ء والبراء ایک اہم ترین مسئلہ ہے،ہر مومن کے لئے اس سے آگاہی اور اس پر عمل ضروری ہے،یعنی اہل ایمان سے محبت اور اہل کفراور ملحدین سے بغض اور اعراض۔ 3: ایمانیات کی تمامتر جزئیات تسلیم اور قبول کیے بغیر کوئی نیکی درجہ قبول نہیں پاسکتی،ان میں سے ایک اہم مسئلہ تقدیر بھی ہے۔ 4:لازمی ہے کہ علم شریعت قوت اور شباب (جوانی) کے دنوں میں حاصل کیا جائے۔ طالب علم کا لباس انتہائی صاف ستھراہو اور وہ اپنے مشائخ سے از حد تواضع کا معاملہ رکھے۔ 5:ایمان اعضائے باطنی اور اعضائے ظاہری دونوں عمل یعنی تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان و اعمال صالحہ کا نام ہے جبکہ اسلام اعضائے ظاہری کے اعمال یعنی اقرارباللسان واعمال صالحہ کا نا م ہے۔ ایمان میں اسلام بھی شامل ہے مگر جہاں ان کی الگ الگ پہچان کرنا مقصود ہو وہاں اسلام کا اطلاق ظاہری اعمال پر اور ایمان کا اطلاق باطنی امور پر ہوتا ہے جن کو ظاہری اعمال خود بخود مستلزم ہوتے ہیں۔ 6: صفت احسان یعنی بندے کایہ تصور ہوکہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے،ایمان اور اسلام کے کمال کی نشانی ہے۔ 7: قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں 8: اولادوں کا نافرمان ہونا اور بلند سے بلند عمارتوں کی تعمیر میں مقابلہ بالخصوص قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔ 9: فرامین رسول ؐ یعنی حدیث وسنت شرعی حجت ہیں۔ رسول اللہ ؐ کے علاوہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی صاحب عظمت ہو،شریعت میں اس کے قول وفعل کی کوئی حیثیت نہیں جب تک الصادق والمصدوقؐ کی توثیق نہ ہو۔ جس طرح کہ جبریل امین ؑنے دین کی سب سے تفصیلات رسول اللہ ؐ کی زبان سے اداکروائیں۔ براہ راست کچھ نہیں کہا۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر بالفرض وہ کہہ بھی دیتے تو امت کے لئے یہ حجت نہ ہوتا۔ 10:صحابہ کرام رضی اللہ کو آنے والے کا پتہ نہ تھا اس کا مطلب ہے کہ اولیا اللہ غیب نہیں جانتے۔ 11: لفظ دین شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی امور کو محیط ہے
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4695
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث63
´ایمان کا بیان۔` عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 63]
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے، اس میں دین کے اہم مسائل مذکور ہیں۔ اس میں عبادات بھی ہیں، دل اور باقی جسم کے اعمال بھی، واجبات، سنن اور مستحبات بھی اور ممنوع اور مکروہ امور بھی۔
(2) اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہیں جن کو دیکھ کر کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور ایمان سے قلبی تصدیق و یقین مراد ہے جس پر آخرت مین نجات کا دارومدار ہے۔ احسان بھی ایمان ہی کا اعلیٰ درجہ ہے جس کےسبب عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے۔
(3) اکثر اوقات جب ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے باطنی تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اعمال بھی مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے وہ اسلام مراد ہوتا ہے جس سے آخرت میں نجات حاصل ہو گی، یعنی دلی تصدیق کی بنیاد پر نیک اعمال کی انجام دہی، اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ہم معنی ہو جاتے ہیں جب کہ الگ الگ ذکر ہوں، البتہ جب کسی مقام پر ایمان اور اسلام دونوں اکھٹے مذکور ہوں تو ایمان سے قلبی تصدیق مراد ہوتی ہے اور اسلام سے ظاہری اطاعت کے اعمال جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قالَتِ الأَعرابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـكِن قولوا أَسلَمنا﴾(الحجرات: 14) ”بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے (حقیقت میں) تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے“(مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے۔)
(4) اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اللہ کی ذات رو برو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قلبی توجہ، نابت، خشوع، خوف و رجا وغیرہ کی کیفیات اپنے کمال پر ہوں، ورنہ اللہ کی زیارت دنیا میں رہتے ہوئے ممکن نہیں، کوئی مخلوق اسے برداشت نہیں کر سکتی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں، قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے، البتہ اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دیکھیے (صحيح البخاري، حديث: 7437 اور صحيح مسلم، حديث: 182)
(5) قیامت قائم ہونے کا وقت بالتعيين کوئی نہیں جانتا، پیغمبر نہ فرشتے، صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہی علام الغیوب ہے۔
(6) قیامت کی بہت سی علامات حدیثوں میں وارد ہیں، ان میں سے کچھ قیامت سے کافی پہلے واقع ہو چکی ہیں، مثلا: بعثت نبوی، ارض حجاز سے ظاہر ہونے والی آگ، جس سے شام کے شہر بصری میں بھی روشنی ہو گئی، یہ واقعہ 654 ھ میں پیش آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الفتن، باب خروج النار) اور بعض ابھی ظاہر ہونے والی ہیں، مثلا: ظہور دجال اور امام مہدی کا ظہور، نزول مسیح علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کا خروج۔ یہ بڑی بڑی علامات ہیں، زیر نظر حدیث میں چھوٹی علامات ذکر کی گئی ہیں۔
(7)(أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اس جملے کی وضاحت کئی طرح سے کی گئی ہے:
(ا) ایک مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی اور لونڈیوں سے جو اولاد ہو گی، وہ آقا کی اولاد ہونے کی وجہ سے آقا کے حکم میں ہو گی جبکہ ان کی ماں لونڈی ہی کہلائے گی اور بیٹی اپنی ماں کی مالک قرار دی جائے گی۔ حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(ب) ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کے بجائے ان سے گستاخی اور سرکشی کا رویہ رکھے گی اور ان پر اس طرح حکم چلائے گی جس طرح آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے درشت سلوک روا رکھتے ہیں۔
(ج) ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس حدیث میں جدید دور میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ ہے، مثلا: ایسے تجربات کیے گئے ہیں جن میں مذکر اور مونث کے مادہ تولید کو مونث کے جسم سے باہر ملا کر تجربہ گاہ میں جنین وجود میں لایا گیا جسے بعد میں کسی اور مونث کے جسم میں رکھ کر تخلیقی مراحل کی تکمیل ہوئی۔ اس طرح مولود جس کے جسم میں پیدا ہوا، اس کے مادہ تولید سے پیدا نہیں ہوا۔ ان تجربات کے نتیجے میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دولت مند میاں بیوی اپنا جنین کسی غریب عورت کے جسم میں پروان چڑھائیں جو تھوڑی اجرت کے بدلے مشقت برداشت کرنے پر تیار ہو سکتی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تو دولت مند میاں بیوی ہی اس کے ماں باپ مانے جائیں گے، اور جس عورت نے اس کی پیدائش کی تکلیف اٹھائی ہو گی، وہ اجیر یا مملوک ہی رہے گی اور پیدا ہونے والا بچہ اسے اپنی ماں نہیں بلکہ نوکرانی ہی تصور کرے گا اور خود وہ عورت بھی اپنی یہی حیثیت سمجھے گی۔ موجودہ دور میں اخلاقی اقدار جس تیزی سے روبہ زوال ہیں، اس کے مدنظر یہ کچھ بعید نہیں کہ عملا یہ صورت رواج پا جائے۔ واللہ أعلم. یورپ میں، جہاں عفت و پاک دامنی کا تصور ختم ہو گیا ہے، اب اس قسم کی صورتیں اختیار کی جانے لگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسلامی معاشروں کو اس اخلاقی پستی سے محفوظ رکھے۔
(8) جب غربت کے بعد دولت نصیب ہو تو صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر کرتے ہوئے ناداروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہو سکیں، جیسے قارون کو اس کی قوم کے افراد نے کہا تھا: ﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ﴾(القصص: 77) ”اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (دوسروں پر) احسان کر۔“(9) محض اپنے فائدے اور راحت کے لیے اور فخرومباہات کے لیے لمبی چوڑی عمارتیں بنانا درست نہیں۔
(10) عقائد اور اعمال یہ سب دین ہے، لہذا اخروی نجات کے لیے صحیح عقیدہ اور صحیح عمل دونوں ضروری ہیں۔
(11) تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ ہو گا اللہ کو وہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔ اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس نے لکھ رکھا ہے۔ تقدیر کے اچھے برے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے بظاہر خیر ہے، مثلا: تندرستی، خوشحالی، پیداوار کی کثرت اور فراوانی یا جسے ہم شر قرار دیتے ہیں، مثلا: قحط سالی، آلام و مصائب، یہ سب کچھ اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہو رہا ہے۔ اسے خیر و شر مخلوق کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے وہ خیر ہی ہوتا ہے۔
(12) جبریل امین علیہ السلام کا قرآنی وحی لے كر آنا تو مشہور و معروف ہے، علاوہ ازیں دین اسلام کے مسائل کی توضیح و تعلیم کے لیے جبریل علیہ السلام کا آنا بھی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
(13) دینی و اسلامی مسائل سیکھنے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوالات و جوابات کی مجلس و نشست قائم کی جائے، اس انداز سے مسائل خوب ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔
(14) سائل کو مسئول کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب و احترام سے بیٹھنا چاہیے اور انداز گفتگو نہایت نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے۔
(15) جبریل امین علیہ السلام نے سفید لباس اختیار کیا تھا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس پر رغبت دلائی اور خود بھی پسند کیا حتی کہ مُردوں کے لیے بھی سفید کفن کو منتخب کیا۔ (جَامِعُ التِّرْمَذِي، الأدبُ، بَابَ مَا جَاءَ فِي لبسِ الْبيَاضِ، حَدِيْث: 2810)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 63
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2610
´جبرائیل علیہ السلام کا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایمان و اسلام کے اوصاف بیان کرنا۔` یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا: کاش ہماری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چنانچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہو گئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2610]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ایک ان کے داہنے ہو گیا اور دوسرا ان کے بائیں۔ 2؎: یعنی جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے، پہلے سے ہی کوئی چیزلکھی ہوئی اورمتعین شدہ نہیں ہے۔ 3؎: یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پرپہنچا دی جائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2610
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 93
مجھے ابو خیثمہ زہیر بن حرب ؒ نے وکیع کے واسطے سے کہمس سے سنایا، کہمس کہتے ہیں مجھے عبداللہ بن بریدہ ؒ نے یحییٰ بن یعمر ؒ سے نقل کیا، نیز امام مسلم ؒ کا قول ہے ہمیں عبیداللہ بن معاذ العنبری ؒ نے اپنے باپ کے واسطے سے کہمس ؒ سے بیان کیا اور یہ الفاظ عنبری ؒ کے ہیں (حدیث عنبری کی نقل کی گئی ہے) کہمسؒ، ابنِ بریدہ کے واسطے سے یحییٰ بن یعمرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلےمسئلہ تقدیر پر گفتگو کا آغاز معبد الجُہنی نے کیا، میں (یحییٰ)... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:93]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) قَدَرٌ: دال کی زبر اور سکون کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، معنی ہے اندازہ، مقدار، قدرت و طاقت۔ (2) يَتَقَفَّرُونَ: وہ تلاش اور جستجو کرتے ہیں، اگر قاف کی بجائے فاء پہلے ہو یعنی يَتَفَرَّقُونَ تو معنی ہو گا باریکیاں نکالتے ہیں، گہرائی میں اترتے ہیں۔ (3) الْأَمْرَ أُنُفٌ: ہر کام نئے سرے سے ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم نہیں، اللہ تعالیٰ کو وقوع کے بعد پتہ چلتا ہے۔ (4) حُفَاةٌَ: حَافٍ کی جمع ہے۔ ننگے پاؤں والے، عُرَاةٍ کا مفرد عَارٍ ہے، ننگے بدن والے، عَالَةٌ کا مفرد عائل ہے۔ فقیر و محتاج، رِعَاءٌ راء کے کسرہ کے ساتھ رَاعٍ کی جمع ہے چرواہا۔ (5) يَتَطَاوَلُونَ: عمارات کے ارتفاع و بلندی اور کثرت پر ایک دوسرے سے بڑھیں گے اور ان کے حسن و زیبائش پر ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ (6) مَلِيًّا: میم کے فتح اور یاء کی تشدید کے ساتھ، کافی عرصہ یا دیر تک ٹھہرنا۔ سنن کی روایت ہے کہ یہ عرصہ تین دن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجلس سے جلد چلے گئے تھے، اس لیے ان کو آپ نے بعد میں بتایا اور حاضرین کو اسی مجلس میں بتا دیا تھا۔ فوائد ومسائل: جبریل عليه السلام کی آمد اور آپ سے گفتگو نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے بالکل آخری دور میں ہوئی، گویا جس دین کی تکمیل، آپ کی تیئس سالہ زندگی میں ہوئی، آخری دور میں حضرت جبریل کے سوالات اور آپ ﷺ کے جوابات کی صورت میں اس کا خلاصہ اور نچوڑ صحابہ کرام رضي الله عنهم کے سامنے پیش کر دیا گیا، اور اسی حدیث کو حدیث جبریل کے نا م سے موسوم کرتے ہیں۔ اس حدیث میں چونکہ پورے دین کا نچوڑ، خلاصہ اور عطر آگیا ہے، جس طرح فاتحہ میں پورے قرآن کا نچوڑ اور مغز آگیا ہے، اس لیے اس حدیث کو ام السنۃ یا ام الحدیث کا نام دیا گیا ہے، جس طرح کہ فاتحہ کو ام القرآن یا ام الکتاب کہا جاتا ہے۔ دین کا حاصل اور روح تین باتیں ہیں: (الف) انسان اپنے آپ کو کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اس کا مطیع اور فرماں بردار بن جائے، اپنی پوری زندگی اس کی بندگی میں گزارے، اس کا نام اسلام ہے، اور اس کے پانچ ارکان، توحید ورسالت کا اقرار وشہادت، نماز، زکاۃ، روزہ او بیت اللہ کا حج یہ اسلام کا پیکرِ محسوس اور بندگی کا مظہر ہیں۔ (ب) ان غیبی حقیقتوں کا ماننا اور ان پر یقین کرنا، جو اللہ تعالیٰ کا رسول بتلائے اور ان کے ماننے کی دعوت دے اس کا نام ایمان ہے، جس کے چھ ارکان ہیں، اللہ تعالیٰ، فرشتوں، آسمانی کتابوں، رسولوں، قیامت اورتقدیر خیر وشر پر ایمان لانا۔ (ج) اسلام اور ایمان کا اس قدر پختہ یقین، جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایسا استحضار ہو کہ اس کے احکام وفرامین، اور اس کے اوامر ونواہی کی تعمیل اس طرح ہونے لگے گویا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے۔ فرماں برداری اور بندگی کی اس کیفیت کا نام احسان ہے۔ اگرچہ انسان دنیا میں نہیں دیکھ سکتا مگر دیکھنے کا تصور کر رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے اور اصل میں اسی کے دیکھنے کا اعتبار ہے کیونکہ اجر وثواب اسی نے دینا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا: یہ ہے کہ اس کو ان تمام صفات کمال سے متصف مانا جائے جو قرآن وحدیث میں آئی ہے اور ان کو بلا تشبیہ وتمثیل اور بلا تکییف وتاویل تسلیم کیا جائے۔ اور اس کو تمام صفاتِ نقص سے منزہ اور پاک مانا جائے، اس کی ذات، صفاتِ افعال اور حقوق میں کسی کو شریک وسہیم قرار نہ دیا جائے، پوری کائنات کا خالق ومالک اور مدبر ومنتظم مانا جائے، نفع ونقصان کا مالک صرف اسی کو تسلیم کیا جائے۔ اس لیے تمام حوائج وضروریات کا پورا کرنے والا اور تمام مشکلات کا حل کرنے والا اسے ہی مانا جائے۔ ملائکہ پر ایمان لانا: یہ ہے کہ وہ ایک مستقل مخلوق ہے جس طرح انسان، جن اور حیوان ایک الگ الگ اور مستقل مخلوق ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک پاکیزہ اورمحترم مخلوق ہے، یعنی"عباد مکرمون" معزز ومکرم بندے ہیں، جن میں شر اور شرارت، عصیان وسرکشی اور نافرمانی کا مادہ نہیں ہے۔ ﴿لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾(التحريم: 6) ”وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے، جو حکم ملتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ “ ﴿لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ﴾(الأنبياء: 27) ”بات میں پہل نہیں کرتے، صرف اس کے حکم کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔ “ اس طرح قرآن وسنت میں ان کی جو صفات اور فرائض وذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ان کو دل کی گہرائی سے ماننا "ایمان بالملائکہ" ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانے کا مقصد یہ ہے کہ تسلیم کیاجائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد وہدایت اور رہنمائی کے لیے وقتا فوقتا جو ہدایت نامے بھیجے وہ برحق تھے اور اب آخری ہدایت نامہ قرآن مجید ہے جو پہلی تمام کتابوں کا مصداق اور مھیمن (نگہبان ومحافظ) ہے۔ یہ ہدایت نامہ، آسمانی ہدایت ناموں کا گویا آخری اور مکمل ترین ایڈیشن ہے، جو تمام آسمانی کتابوں کے اساسی وبنیادی اور ضروری مضامین پر مشتمل ہے۔ سب سے مستغنی اور بے نیاز کر دینے والا ہے۔ رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کی ضرورت کا کفیل ہے۔ اب انسان کسی اور ہدایت نامے (آسمانی کتاب) اور شریعت ودین کے محتاج نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک، اس کے حضاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہے، فرمایا: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾(الحجر: 9) ”بے شک ہم ہی نے ذکر اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ “ اللہ تعالی ٰ کے رسولوں پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس واقعی حقیقت کا صدق دل سے اقرر کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے وقتا فوقتا اپنے بندوں کی رشد وہدایت اور رہنمائی کے لیے، اپنے مخصوص، برگزیدہ اور منتخب بندوں کو اپنی رضا مندی کا مظہر ضابطہء حیات اوردستورِ زندگی دے کر مختلف علاقوں اور مختلف لوگوں کی طرف بھیجا۔ انہوں نے انتہائی دیانت وامانت اور فرض شناسی سے اللہ تعالیٰ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا اور انہوں نے انسانوں کو راہ راست پر لانے اور کفر وضلالت سے بچانے کےلیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور انتہائی محنت ومشقت برداشت کرتے ہوئے اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآ ہوئے، وہ سب کے سب صادق اور امین تھے، ان میں سے کسی نے بھی اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور نہ کسی نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا، ان میں سے چند ایک کے حالات واقعات قرآن وسنت میں بیان کیے گئے ہیں اور اکثر کے حالات پردہ خفا میں ہیں، فرمایا: ﴿مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ﴾(الْمُؤْمن: 78) ”ان میں سے بعض کا حال ہم نے آپ سے بیان کیا ہے اور بعض کا حال آپ سے بیان نہیں کیا ہے۔ “ رسالت ونبوت کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اب کسی نبی یا رسول کا آنا ممکن نہیں ہے اور جو بھی یہ دعویٰ کرتا ہے، یا کرے گا وہ جھوٹا اور مکار ہے اور اس کو ماننے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔ آپ ﷺ خاتم الانبیاء اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں: ﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾(الأحزاب: 40) ”محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، البتہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔ “ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نجات وفلاح آپ ہی کی پیروی پر موقوف ہے اور آپہ ی کی ہدایات وتعلیمات کی پابندی ایمان کی علامت اورنشانی ہے۔ ایمان بالیوم الآخر کا معنی یہ ہے کہ: اس حقیقت کا یقین کیا جائے کہ یہ دنیا اپنے وقت مقررہ پر انجام کو پہنچ جائے گی یعنی موجودہ کائنات فنا کر دی جائے گی، دنیا کے خاتمہ پر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے تما م انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا اور ان سے ان کی زندگی کا حساب وکتاب لے گا، انسان نے جو کچھ اس دنیا میں کیا ہے اس کی جزا یا سزا پائے گا جو بویا ہے اسے ہی کاٹے گا، انسان کی کامیابی وکامرانی یا ناکامی ونامرادی کا دارومدار انسان کے اپنے عقیدہ اور عمل پر ہے۔ ایمان بالقدر یہ ہے کہ: اس بات کا اقرار کیا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے خیر ہے یا شر نیک ہے یا بد، کفر وشرک ہے یا ایمان ویقین، شریعت ودین کی پابندی وپاسداری ہے یا نافرمانی وعصیان اور سر کشی، اس سب کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے اور سب کچھ اس کے ارادہ اور مشیت کے تحت ہو رہا ہے، لیکن وہ ایمان ویقین اور اطاعت وفرمانبرداری کو پسند فرماتا ہے اور کفر وعصیان کو ناپسند کرتا ہے: ﴿لَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ﴾(الزمر: 7) ”وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو ناپسند کرتا ہے اور اگر تم شکر کرو گے تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔ “ دنیا میں کوئی چیز اس کی منشا کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ جو کچھ چاہتا ہے وہی وہتا ہے اورجو کچھ نہیں چاہتا وہ نہیں ہو سکتا، ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو لیکن اس دنیا میں اس کی منشا کے خلاف کچھ اور واقع ہو جائے وہ عاجز اور بے بس نہیں ہے بلکہ قدرت کاملہ کا مالک ہے۔ اس کا علم محیط ہے یعنی ازلی وابدی ہے۔ ہر چیز کو اس کے وقوع سے پہلے جانتا ہے اور اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے علم کے مطابق ہو رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کے علم میں کچھ ہواور واقع کچھ اور ہوجائے۔ قدریہ جو معبد جہنی کے پیروکار ہیں: وہ ان چیزوں کے منکر ہیں، ان کے بقول اللہ تعالیٰ کو پہلے سے کسی چیز کا علم نہیں ہے، بلکہ اس وقت علم ہوتا ہے جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے، اس فرقہ کو جو تقدیر کا منکر ہے قدریہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ لوگ تقدیر کے مسئلہ پر بہت بحث وتمحیص کرتے ہیں، اہل حق تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ اور ان کے تما م افعال، خیر ہوں یا شر، نیک ہوں یا بد کا خالق اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرتے ہیں، انسان کو صرف فاعل (کرنے والا) اور کَاسِبُ (کمانے والا) قرار دیتے ہیں او ر قدریہ تمام افعال کا خالق اپنے آپ کو یعنی انسان کو قرار دیتے ہیں، گویا قدر اور فعل کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں، اس لیے ان کا نام قدریہ رکھا گیا، لیکن یہ عقیدہ قدیم قدریہ کا تھا جو ختم ہوچکے ہیں، معتزلہ کو بھی قدریہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اس بات کےقائل تھے کہ بندہ قادر ہے اور وہ خود اپنے افعال خیر ہوں یا شر، کفر وضلالت ہوں یا رشد وہدایت کاخالق ہے۔ رافضی یعنی شیعہ کا موقف بھی یہی ہے، اہل حدیث کے نزدیک ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اس کے سوا کوئی بھی خالق نہیں، یہاں تک کہ انسان کے ارادہ و اختیار اور انکار وخیالات کا خالق بھی وہی ہے۔ جدید قدریہ: خیر کا خالق اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور شرکا انسان کو اس لیے ان کو محبوس قرار دیاجاتا ہے کیونکہ مجوسی بھی نور(یزداں) کو خالق خیر قرار دیتے ہیں اور ظلمت (اہرمن) کو خالق شر، جب کہ حقیقتًا یہ لوگ مجوس سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ انہوں نے تو ہر انسان کو خالق قرار دیا ہے۔ احسان: یہ ہے کہ ہر انسان، ہر عمل انتہائی خوبی وکمال کے ساتھ اس طرح سر انجام دے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، کیونکہ یہ تو ایک حقیقت مسلمہ ہے کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اگرچہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے ہیں، اس طرح احسان کا تعلق انسان کی پوری زندگی اور ہر حرکت وعمل سے ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی وطاعت اوراس کے ہر حکم کی تعمیل اس طرح کی جائے اور اس کے مؤاخذہ ومحاسبہ سے اس طرح ڈرا جائے گویا وہ ہمارے سامنے ہے اور ہماری ہر حرکت وسکون اور ہر قول فعل کو دیکھ رہا ہے اور ہمارا داعیہ عمل جذبہ فعل اور اخلاص ومحنت اس پر عیاں ہے۔ اس حقیقت کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک غلام اپنے آقا کے حکم کی تعمیل ایک تو اس وقت کرتا ہے جب اس کا آقا ومالک اس کے سامنے موجود ہوتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ میرا آقا میرے کام کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ غلام کا آقا اس کے سامنےموجود نہیں ہوتا اوروہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا مالک میرے کام کو دیکھ نہیں رہا ہے، عام طور پر ان دونوں قسم کے حالات میں فرق ہوتا ہے۔ جس قدر توجہ اوراہتمام اور محنت ولگن اور خوبصورتی وہنز مندی سے غلام آقا کے سامنے جب کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کام سر انجام دیتا ہے، اس کی عدم موجودگی یا نظر نہ آنے کی صورت میں اس قدر خوش اسلوبی اور محنت یا کاوش اور ذوق وشوق سے کام نہیں کرتا۔ یہی حال انسان کا اپنے خالق ومالک کے ساتھ ہے کہ جس وقت بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ میرا خالق ومالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرا ہر کام، ہر قول وفعل اور اس کاجذبہ محرکہ یا داعیہ عمل اس پر عیاں ہے، اس وقت اس کے عمل ورویہ میں جو دلی توجہ واہتمام، محنت ولگن اور اخلاص کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے وہ اس وقت نہیں ہوتا۔ جب اسے یہ احسان نہ ہو کہ میرا آقا ومالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس لیے ہر قول وعمل کے وقت اس احسان کا استحضار ہونا چاہیے کہ میں اپنے مالک کو دیکھ رہا ہوں جیسا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے کیونکہ اس کا دیکھنا ایک طے شدہ حقیقت ہے، اس لیے جذبہ مشاہدہ حق کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ نووی ؒ اور امام سندھی ؒ نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے، لیکن عام طور پر یہ معنی کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ درجہ اس حقیقت کو پیدا کرنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے، اس کو مشاہدہ حق کا نام دیا جاتا ہے۔ اگرچہ درجہ پیدا نہ ہوسکے تو کم از کم اس حقیقت کا تو استحضار وتصور ہونا چاہیے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) مجھے دیکھ رہا ہے، اگرچہ میں اسے نہیں دیکھ رہا ہوں اس کو مراقبہ حق کا نام دیاجاتا ہے۔ علامہ نووی ؒ وسندھی ؒ کے نزدیک انسان کا اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھنا ایک حقیقت ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا انسان کو دیکھنا ایک حقیقت ہے، اس لیے مراقبہ حق کا استحضار اور ذہن نشین ہونا ہی مشاہدہ حق کا ذریعہ وواسطہ ہے۔ اگر انسان کو کسی چیز کا علم نہ ہو تو اسے اہل علم سے دریافت کرنا چاہیے، اور اہل علم کو سائل کے سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دینا چاہیے اور اگر صاحب علم کو کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو اسے صاف کہہ دینا چاہیے مجھے اس کا علم نہیں ہے، تحقیق وجستجو کے بعد بتا سکوں گا اور ہر سوال کا جواب معلوم نہ ہونا اہل علم کی شان کے منافی نہیں، کیونکہ عالم کے لیے ہر بات کا معلوم ہونا ضروری نہیں ہے۔ جبریل علیہ السلام اور نبی اکرم ﷺ کے سوالات اور جوابات اس حقیقت کا مظہر ہیں اور قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النحل: 43) ”اگر تمہیں علم نہ ہو تو اہل علم سے سے پوچھ لو۔ “ علامات قیامت: (الف) لونڈی، اپنی مالکہ اور آقا کوجنے گی۔ شارحین حدیث نے اس جملہ کے مختلف معانی بیان فرمائے ہیں۔ دور حاضر کے مناسب معنی یہ ہے کہ قیامت کے وقوع اور قرب کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ماں باپ کی نافرمانی عام ہوجائے گی حتیٰ کہ بچیاں جن کی جبلت وسرشت میں ماؤں کی اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ وافر ہوتا ہے، جن سے ماں کی سرکشی ونافرمانی کا صدور بظاہر بہت مشکل ہے وہ بھی نہ صرف یہ کہ ماؤں کی نافرمان ہوں گی، بلکہ الٹا ان پر اس طرح حکم چلائیں گی جس طرح ایک مالکہ اپنی لونڈی پر حکم چلاتی ہے۔ (ب) بھوکے، ننگے اور بکریوں کے چرواہے یعنی نچلے طبقہ کے لوگ اونچے اونچے محل او رقلعہ نما کوٹھیاں تعمیر کریں گے، اس فقرہ میں اس حقیقت کی نشان دہی فرمائی گئی ہے کہ قیامت کے قریب دینوی مال ودولت اور سرداری، چودھراہٹ ان لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو اس کے اہل نہیں ہوں گے، ان کے نزدیک مال ودولت اور حکومت واقتدار کا مقصد ومصرف یہی ہوگا کہ اونچے اونچے اور شاندار محل بنوائے جائیں اور اسی کو سرمایہ فخر و مباہات قرار دیا جائے۔ اس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کی جائے گی ہمارے ملک کا صدارتی محل، وزیر اعظم ہاؤس اور ہمارے لیڈروں کی کوٹھیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اس حقیقت کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے: (إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ) (بخاری) ”جب حکومتی اختیارات اورعہدے ومناصب نا اہلوں کے سپرد ہونےلگیں تو پھر قیامت کا انتظار کرنا۔ “ بعض شبہات کا ازالہ: (1) بعض حضرات نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یا محمد! کہنا اور اس کے ذریعہ ندا کرنا جائز قرار دیا ہے اور لکھا ہے یہ ندا ادب اور احترام کے خلاف نہیں، اگر ندا کرنا ادب واحترام کے خلاف ہوتا تو یا اللہ! کہنا بھی حرام ہوتا، اس کی تائید میں وہ احادیث بھی پیش کی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اورانبیاء نے رسول اللہ ﷺ کو یا محمد! کے ساتھ ندا اور خطاب کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے: (1) اللہ تعالیٰ، جبریل علیہ السلام اور بعض انبیا ء علیہم السلام کا آپ کو یا محمد (ﷺ) کہنا آپ کی دنیوی زندگی میں اور آپ کے سامنے تھا اور آج آپ (ﷺ) کو یا محمد حاضر ناظر سمجھ کر استعانت اور استغاثہ کےلیے کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ قیاس مع الفارق ہے، آپ کو حاضر وناظر سمجھنا اور اس وقت آپ سےاستعانت واستغاثہ کرنا قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ آپ کو اب حیات برزخی حاصل ہے، اور آپ کا ہم سے تعلق ورابطہ ختم ہو چکا ہے، اس لیے اس عقیدہ کی صورت میں تو یا رسول اللہ! کہنا بھی درست نہیں ہے۔