(مرفوع) حدثنا تميم بن المنتصر، اخبرنا إسحاق يعني ابن يوسف،عن شريك، عن ابي إسحاق، عن ابي الاحوص، عن عبد الله، قال: كنا لا ندري ما نقول إذا جلسنا في الصلاة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد علم، فذكر نحوه. قال شريك: وحدثنا جامع يعني ابن ابي شداد، عن ابي وائل، عن عبد الله، بمثله، قال:" وكان يعلمنا كلمات، ولم يكن يعلمناهن كما يعلمنا التشهد: اللهم الف بين قلوبنا، واصلح ذات بيننا، واهدنا سبل السلام، ونجنا من الظلمات إلى النور، وجنبنا الفواحش ما ظهر منها وما بطن، وبارك لنا في اسماعنا وابصارنا وقلوبنا وازواجنا وذرياتنا، وتب علينا إنك انت التواب الرحيم، واجعلنا شاكرين لنعمتك مثنين بها قابليها واتمها علينا". (مرفوع) حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ،عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ إِذَا جَلَسْنَا فِي الصَّلَاةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عُلِّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ شَرِيكٌ: وَحَدَّثَنَا جَامِعٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي شَدَّادٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، بِمِثْلِهِ، قَالَ:" وَكَانَ يُعَلِّمُنَا كَلِمَاتٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُعَلِّمُنَاهُنَّ كَمَا يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ: اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ مُثْنِينَ بِهَا قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ جب ہم نماز میں بیٹھیں تو کیا کہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا، پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ شریک کہتے ہیں: ہم سے جامع یعنی ابن شداد نے بیان کیا کہ انہوں نے ابووائل سے اور ابووائل نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل روایت کی ہے اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چند کلمات سکھاتے تھے اور انہیں اس طرح نہیں سکھاتے تھے جیسے تشہد سکھاتے تھے اور وہ یہ ہیں: «اللهم ألف بين قلوبنا وأصلح ذات بيننا واهدنا سبل السلام ونجنا من الظلمات إلى النور وجنبنا الفواحش ما ظهر منها وما بطن وبارك لنا في أسماعنا وأبصارنا وقلوبنا وأزواجنا وذرياتنا وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم واجعلنا شاكرين لنعمتك مثنين بها قابليها وأتمها علينا»”اے اللہ! تو ہمارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دے، اور ہماری حالتوں کو درست فرما دے، اور راہ سلامتی کی جانب ہماری رہنمائی کر دے اور ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنی عطا کر دے، آنکھوں، دلوں اور ہماری بیوی بچوں میں برکت عطا کر دے، اور ہماری توبہ قبول فرما لے تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے، اور ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار و ثنا خواں اور اسے قبول کرنے والا بنا دے، اور اے اللہ! ان نعمتوں کو ہمارے اوپر کامل کر دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود (ضعیف)» (شریک کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
Narrated Abdullah ibn Masud: We did not know what we should say when we sat during prayer. The Messenger of Allah ﷺ was taught (by Allah). He then narrated the tradition to the same effect. Sharik reported from Jami', from Abu Wail on the authority of Abdullah ibn Masud something similar. He said: He used to teach us also some other words, but he did not teach them as he taught us the tashahhud: O Allah, join our hearts, mend our social relationship, guide us to the path of peace, bring us from darkness to light, save us from obscenities, outward or inward, and bless our ears, our eyes, our hearts, our wives, our children, and relent toward us; Thou art the Relenting, the Merciful. And make us grateful for Thy blessing and make us praise it while accepting it and give it to us in full.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 964
قال الشيخ الألباني: صحيح، ومن قوله: قال شريك: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه النسائي (1164 وسنده صحيح)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 969
969۔ اردو حاشیہ: ➊ «ازواج» جمع «زوج» اضداد میں سے ہے۔ شوہر کے مقابلے میں بیوی اور بیوی کے مقابلے میں شوہر کے معنی میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ ساتھی اور جوڑے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس طرح اس کے معنی میں بڑی وسعت ہے۔ ➋ شروع حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا گیا تھا۔ بلاشبہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین و عبادت میں کوئی معمولی سی بات بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے اور ہمیں دین کی تمام تفصیلات و جزیئات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لینی ہیں۔ چنانچہ ہم تمام مسلمانوں کی فکر بھی یہی ہونی چاہیے، اس فکر سے انسان بدعات سے بچ سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 969