(مرفوع) حدثنا عبد السلام بن عبد الرحمن الوابصي، حدثنا ابي، عن شيبان، عن حصين بن عبد الرحمن، عن هلال بن يساف، قال: قدمت الرقة، فقال لي بعض اصحابي: هل لك في رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلت: غنيمة، فدفعنا إلى وابصة، قلت لصاحبي: نبدا، فننظر إلى دله، فإذا عليه قلنسوة لاطئة ذات اذنين، وبرنس خز اغبر، وإذا هو معتمد على عصا في صلاته، فقلنا: بعد ان سلمنا؟: فقال: حدثتني ام قيس بنت محصن، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" لما اسن وحمل اللحم اتخذ عمودا في مصلاه يعتمد عليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْوَابِصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: قَدِمْتُ الرَّقَّةَ، فَقَالَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِي: هَلْ لَكَ فِي رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: غَنِيمَةٌ، فَدَفَعْنَا إِلَى وَابِصَةَ، قُلْتُ لِصَاحِبِي: نَبْدَأُ، فَنَنْظُرُ إِلَى دَلِّهِ، فَإِذَا عَلَيْهِ قَلَنْسُوَةٌ لَاطِئَةٌ ذَاتُ أُذُنَيْنِ، وَبُرْنُسُ خَزٍّ أَغْبَرُ، وَإِذَا هُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى عَصًا فِي صَلَاتِهِ، فَقُلْنَا: بَعْدَ أَنْ سَلَّمْنَا؟: فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ قَيْسٍ بِنْتُ مِحْصَنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ اتَّخَذَ عَمُودًا فِي مُصَلَّاهُ يَعْتَمِدُ عَلَيْهِ".
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ میں رقہ ۱؎ آیا تو میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا: کیا تمہیں کسی صحابی سے ملنے کی خواہش ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ (ملاقات ہو جائے تو) غنیمت ہے، تو ہم وابصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، میں نے اپنے ساتھی سے کہا: پہلے ہم ان کی وضع دیکھیں، میں نے دیکھا کہ وہ ایک ٹوپی سر سے چپکی ہوئی دو کانوں والی پہنے ہوئے تھے اور خز ریشم کا خاکی رنگ کا برنس ۲؎ اوڑھے ہوئے تھے، اور کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نماز میں ایک لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر ہم نے سلام کرنے کے بعد ان سے (نماز میں لکڑی پر ٹیک لگانے کی وجہ) پوچھی تو انہوں نے کہا: مجھ سے ام قیس بنت محصن نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب زیادہ ہو گئی اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون بنا لیا جس پر آپ ٹیک لگاتے تھے۔
وضاحت: ۱؎: ایک شہر کا نام ہے جو شام میں دریائے فرات پر واقع ہے۔ ۲؎: ایک قسم کا لباس جس میں ٹوپی اسی سے بنی ہوتی ہے۔
Narrated Umm Qays bint Mihsan: Hilal ibn Yasaf said: I came to ar-Raqqah (a place in Syria). One of my companions said to me: Do you want to see any of the Companions of the Prophet ﷺ? I said: A good opportunity. So we went to Wabisah. I said to my friend: Let us first see his mode of living. He had a cap with two ears stuck (to his head), and wearing a brown silken robe. He was resting on a staff during prayer. We asked him (about resting on the staff) after salutation; He said: Umm Qays daughter of Mihsan said to me that when the Messenger of Allah ﷺ became aged and the flesh grew increasingly on him, he took a prop at his place of prayer and rested on it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 948
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن أخرجه البيھقي (2/288 وسنده حسن) وصححه الحاكم (1/264، 265 وسنده حسن) ووافقه الذهبي
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 948
948۔ اردو حاشیہ: ➊ اس سے قبل کے باب میں وارد حدیث سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز میں لاٹھی کا سہارا لینا درست نہیں۔ تو یہ باب اور حدیث اس مسئلے کو واضح کرتی ہے۔ ➋ صالحین کی زیارت اور ان کی صحبت میسر آنا بہت بڑی غنیمت ہے۔ ➌ معروف مشہور ہے کہ انسان کا مظہر اس کے باطن کا عکاس ہوتا ہے۔ لہٰذا ظاہر ی منظر سادہ اور سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اصحاب مجلس پر اس کا بہت عمدہ اثر ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص وفود کے استقبال میں اس کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ ➍ عذر کی بنا پر نماز میں سہارا لینا جائز ہے اور سہارے سے کھڑے ہونا بیٹھنے کی نسبت زیادہ افضل ہے۔ ➎ بطور عادت یا فیشن کے ہر وقت ننگے سر رہنا حتیٰ کہ مسقتل طور پر نماز بھی ننگے سر پڑھنا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طریقے کے خلاف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 948