(مرفوع) حدثنا محمد بن معاذ بن عباد العنبري، حدثنا ابو عوانة، عن يعلى بن عطاء، عن معبد بن هرمز، عن سعيد بن المسيب، قال: حضر رجلا من الانصار الموت، فقال: إني محدثكم حديثا ما احدثكموه إلا احتسابا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا توضا احدكم فاحسن الوضوء ثم خرج إلى الصلاة لم يرفع قدمه اليمنى، إلا كتب الله عز وجل له حسنة، ولم يضع قدمه اليسرى، إلا حط الله عز وجل عنه سيئة، فليقرب احدكم او ليبعد، فإن اتى المسجد فصلى في جماعة غفر له، فإن اتى المسجد وقد صلوا بعضا وبقي بعض صلى ما ادرك واتم ما بقي كان كذلك، فإن اتى المسجد وقد صلوا فاتم الصلاة كان كذلك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاذِ بْنِ عَبَّادٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: حَضَرَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ الْمَوْتُ، فَقَالَ: إِنِّي مُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا مَا أُحَدِّثُكُمُوهُ إِلَّا احْتِسَابًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ لَمْ يَرْفَعْ قَدَمَهُ الْيُمْنَى، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ حَسَنَةً، وَلَمْ يَضَعْ قَدَمَهُ الْيُسْرَى، إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ سَيِّئَةً، فَلْيُقَرِّبْ أَحَدُكُمْ أَوْ لِيُبَعِّدْ، فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى فِي جَمَاعَةٍ غُفِرَ لَهُ، فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا بَعْضًا وَبَقِيَ بَعْضٌ صَلَّى مَا أَدْرَكَ وَأَتَمَّ مَا بَقِيَ كَانَ كَذَلِكَ، فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ كَانَ كَذَلِكَ".
سعید بن مسیب کہتے ہیں ایک انصاری کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے کہا: میں تم لوگوں کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے صرف ثواب کی نیت سے بیان کر رہا ہوں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کے لیے نکلے تو وہ جب بھی اپنا داہنا قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے، اور جب بھی اپنا بایاں قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے لہٰذا تم میں سے جس کا جی چاہے مسجد سے قریب رہے اور جس کا جی چاہے مسجد سے دور رہے، اگر وہ مسجد میں آیا اور اس نے جماعت سے نماز پڑھی تو اسے بخش دیا جائے گا اور اگر وہ مسجد میں اس وقت آیا جب کہ (جماعت شروع ہو چکی تھی اور) کچھ رکعتیں لوگوں نے پڑھ لی تھیں اور کچھ باقی تھیں پھر اس نے جماعت کے ساتھ جتنی رکعتیں پائیں پڑھیں اور جو رہ گئی تھیں بعد میں پوری کیں تو وہ بھی اسی طرح (اجر و ثواب کا مستحق) ہو گا، اور اگر وہ مسجد میں اس وقت پہنچا جب کہ نماز ختم ہو چکی تھی اور اس نے اکیلے پوری نماز پڑھی تو وہ بھی اسی طرح ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود،(تحفة الأشراف: 15583) (صحیح)»
Narrated A person from the Ansar: Saeed ibn al-Musayyab said: An Ansari was breathing his last. He said: I narrate to you a tradition, and I narrate it with the intention of getting a reward from Allah. I heard the Messenger of Allah ﷺ say: If any one of you performs ablution and performs it very well, and goes out for prayer, he does not take his right step but Allah records a good work (or blessing) for him, and he does not take his left step but Allah remits one sin from him. Any one of you may reside near the mosque or far from it; if he comes to the mosque and prays in congregation, he will be forgiven (by Allah). If he comes to the mosque while the people had prayed in part, and the prayer remained in part, and he prays in congregation the part he joined, and completed the part he had missed, he will enjoy similarly (i. e. he will be forgiven). If he comes to the mosque when the people had finished prayer, he will enjoy the same.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 563
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف معبد بن ھرمز مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده والحديث الآتي (الأصل: 564) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 34
إذا توضأ أحدكم فأحسن الوضوء ثم خرج إلى الصلاة لم يرفع قدمه اليمنى إلا كتب الله له حسنة ولم يضع قدمه اليسرى إلا حط الله عنه سيئة فليقرب أحدكم أو ليبعد فإن أتى المسجد فصلى في جماعة غفر له فإن أتى المسجد وقد صلوا بعضا وبقي بعض صلى ما أدرك وأتم
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 563
563۔ اردو حاشیہ: اس انداز کی کئی احادیث ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے انہیں آخری اوقات میں فرمایا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ کہیں ہمیں علم چھپانے کا گناہ نہ ہو۔ دراصل ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ اور اعمال خیر پر انتہائی اجر عظیم کا ذکر آیا ہے۔ جس سے عام لوگوں کے لئے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ چند ایک بار کے عمل پر تکیہ کر بیٹھیں گے اور پھر بے عمل ہو جایئں گے۔ اس لئے ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ان کو کھلے عام بیان نہیں فرمایا بلکہ اپنے آخری اوقات میں کتمان علم (علم چھپانے) کے گناہ کے خوف سے بیان کیا۔ لہٰذا علماء اور وعاظ کو بھی ایسی احادیث خاص علمی حلقات اور دانا لوگوں کی مجالس ہی میں بیان کرنی چاہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 563