سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
47. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ
47. باب: جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔
Chapter: The Severity Of Not Attending The Congregational Prayer.
حدیث نمبر: 553
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا هارون بن زيد بن ابي الزرقاء، حدثنا ابي، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن عابس، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابن ام مكتوم، قال:" يا رسول الله، إن المدينة كثيرة الهوام والسباع، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اتسمع حي على الصلاة، حي على الفلاح، فحي: هلا"، قال ابو داود: وكذا رواه القاسم الجرمي، عن سفيان، ليس في حديثه: حي هلا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْمَدِينَةَ كَثِيرَةُ الْهَوَامِّ وَالسِّبَاعِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَسْمَعُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، فَحَيَّ: هَلًا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَا رَوَاهُ الْقَاسِمُ الْجَرْمِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، لَيْسَ فِي حَدِيثِهِ: حَيَّ هَلًا.
ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں`: اللہ کے رسول! مدینے میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم «حى على الصلاة» اور «حى على الفلاح» (یعنی اذان) سنتے ہو؟ تو (مسجد) آیا کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے قاسم جرمی نے سفیان سے روایت کیا ہے، ان کی روایت میں «حى هلا» (آیا کرو) کا ذکر نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الإمامة 50 (852)، (تحفة الأشراف: 10787) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Ibn Umm Maktum: Messenger of Allah, there are many venomous creatures and wild beasts in Madina (so allow me to pray in my house because I am blind). The Prophet ﷺ said: Do you hear the call, "Come to prayer, " "Come to salvation"? (He said: Yes. ) Then you must come. Abu Dawud said: Al-Qasim al-Jarmi has narrated this tradition from Sufyan in a similar manner. But his version does not contain the words "Then you must come. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 553


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (852)
سفيان الثوري عنعن
وحديث مسلم (653) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 33

   سنن النسائى الصغرى852عمرو بن زائدةهل تسمع حي على الصلاة حي على الفلاح قال نعم قال فحي هلا ولم يرخص له
   سنن أبي داود553عمرو بن زائدةأتسمع حي على الصلاة حي على الفلاح فحي هلا
   سنن أبي داود552عمرو بن زائدةهل تسمع النداء قال نعم قال لا أجد لك رخصة
   سنن ابن ماجه792عمرو بن زائدةهل تسمع النداء قلت نعم قال ما أجد لك رخصة
   المعجم الصغير للطبراني274عمرو بن زائدةأتسمع النداء قال نعم قال ما أجد لك رخصة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 553 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 553  
553۔ اردو حاشیہ:
یہ اور دیگر احادیث واضح دلیل ہیں کہ نماز باجماعت واجب ہے، سب جانتے ہیں کہ خوف کے موقع پر بھی صلاۃ خوف باجماعت ہی مشروع ہے۔ اور اصحاب اعذار کے لئے دلائل سے ثابت ہے کہ جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت ضرور ہے، مگر اس فضیلت سے محروم رہیں گے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ جناب عبداللہ ابن مکتوم کو رخصت نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ شاید ان کا سوال عزیمت کے متعلق تھا۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں جا کر ان کی جائے نماز کا افتتاح فرمایا تھا۔ اور مذکورہ بالا حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں بھی شرعی عذر خوف یا مرض کا استثناء موجود ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 553   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث792  
´جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔`
عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں بوڑھا اور نابینا ہوں، میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد تک لانے والا میرے مناسب حال کوئی آدمی بھی نہیں ہے، تو کیا آپ میرے لیے (جماعت سے غیر حاضری کی) کوئی رخصت پاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اذان سنتے ہو؟، میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 792]
اردو حاشہ:
(1)
ہمارے فاضل محقق ؒ مذکورہ حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے (653)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
تفصیل کے لیے حدیث کی تحقیق وتخریج ملاحظہ فرمائیں۔
نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 255، 244، 243/24)
اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ان کے متعدد عذر موجود تھے:

(ا)
وہ معمر تھے۔

(ب)
وہ نابینا تھے۔

(ج)
ان کا گھر دور تھا۔

(د)
ان کے گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو انھیں مسجد میں لانے کا فرض مستقل طور پر انجام دے سکے۔

(ھ)
جو شخص انھیں مسجد میں لاتا تھا وہ بھی ان کی مرضی کے مطابق خدمت انجام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی سہولت کو زیادہ مد نظر رکھتا تھا۔ (وَلَيْسَ لِي قَائِدٌ يُلَاوِمُنِي)
 کوئی میری مرضی کے مطابق لانے والا نہیں۔
کا یہی مطلب ہے۔

(د)
ان کےگھر اور مسجد کے درمیان نشیبی علاقہ تھا جس میں بارش کے موقع پر پانی جمع ہوجاتا تھا۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:
(صلاة الجماعة، أهمتيها وفضلها، تصنیف:
ڈاکٹر فضل الہی۔)


(3)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ ثواب ملے۔
اس کا مقصد ترغیب تھا ورنہ نابینا آدمی اگر مسجد میں آنے میں دشواری محسوس کرے تو اسے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
جیسے کہ نبی ﷺ نے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کو اجاذت دےدی تھی۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجه حديث: 754)

(4)
رسول الله ﷺ نے ان سے اذان کے متعلق پوچھا کہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص آبادی سے دور قیام پذیر ہو جہاں عام طور پر اذان کی آواز نہیں پہنچتی وہ وہیں نماز ادا کرسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 792   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.