ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحی 17 (1514)، (تحفة الأشراف: 12020)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/9، 391، 392) (ضعیف)» (اس کے راوی عاصم ضعیف ہیں)
Narrated Abu Rafi: I saw the Messenger of Allah ﷺ uttering the call to prayer (Adhan) in the ear of al-Hasan ibn Ali when Fatimah gave birth to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5086
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1514) عاصم بن عبيداللّٰه: ضعيف وللحديث شاهدان عند البيهقي في شعب الإيمان (8619 عن الحسين بن علي) و (8620 عن ابن عباس) في الأول يحيي بن العلاء وھو كذاب وفي الثاني محمد بن يونس الكديمي: كذاب وشيخه وشيخ شيخه ضعيفان وأما الأذان في أذن المولود فصحيح بالإتفاق انوار الصحيفه، صفحه نمبر 177
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5105
فوائد ومسائل: 1۔ اس عمل کی حکمت ظاہر ہے کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان اور اسلام کے اہم ترین شعار سے تعلق کا اظہار ہے اور ان مبارک کلمات سے تبرک حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل اس نومولود کو کامیابی کی اس راہ پر گامزن فرمائے اور شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے۔ آمین 2۔ بچے کے کان میں ازان کہنے والی یہ روایت تو سندا ثابت نہیں ہے۔ تاہم آج تک امت میں اس پر عمل ہوتا آرہا ہے۔ اور امت کا یہ عملی تواتر ہی اس کے جواز کی بنیاد ہے۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اذان دینے کی حد تک کچھ نہ کچھ اصل تسلیم کی ہے۔ دوسرے کان میں تکبیرکی نہیں دیکھئے۔ (الضعیفة: 329/1، 331حدیث 312) تاہم اس عمل کے مسنون ہونے کی دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5105