(مرفوع) قال ابو داود: حدثت عن سعيد بن سليمان، عن سليمان بن كثير، حدثنا عمرو بن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل في عميا او رميا يكون بينهم بحجر او بسوط فعقله عقل خطإ، ومن قتل عمدا فقود يديه فمن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين". (مرفوع) قَالَ أَبُو دَاوُد: حُدِّثْتُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ فِي عِمِّيَّا أَوْ رِمِّيًّا يَكُونُ بَيْنَهُمْ بِحَجَرٍ أَوْ بِسَوْطٍ فَعَقْلُهُ عَقْلُ خَطَإٍ، وَمَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَقَوَدُ يَدَيْهِ فَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اندھا دھند مارا جائے یا کسی دنگے فساد میں جو ان میں چھڑ گیا ہو، یا کسی پتھر یا کوڑے سے مارا جائے تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہو گی، اور جو جان بوجھ کر عمداً کسی کو قتل کرے تو وہ موجب قصاص ہے، اب اگر کوئی ان دونوں کے بیچ میں پڑ کر (قاتل کو بچانا چاہے) تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے“۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ said: If anyone is killed blindly or, when people are throwing stones, by a stone or a whip, his blood-wit is the blood-wit for an accidental murder. But if anyone is killed intentionally, retaliation is due. If anyone tries to prevent it, the curse of Allah, of angels, and of all the people will rest on him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4574
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (4540)
من قتل في عميا أو رميا تكون بينهم بحجر أو سوط أو بعصا فعقله عقل خطإ من قتل عمدا فقود يده فمن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل
من قتل في عمية أو رمية بحجر أو سوط أو عصا فعقله عقل الخطإ من قتل عمدا فهو قود ومن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا
من قتل في عميا في رمي يكون بينهم بحجارة أو بالسياط أو ضرب بعصا فهو خطأ وعقله عقل الخطإ من قتل عمدا فهو قود ومن حال دونه فعليه لعنة الله وغضبه لا يقبل منه صرف ولا عدل
من قتل في عمية أو عصبية بحجر أو سوط أو عصا فعليه عقل الخطإ من قتل عمدا فهو قود ومن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4793
´پتھر یا کوڑے سے قتل کئے جانے والے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی ہنگامے، یا بلوے اور فساد میں (جہاں قاتل معلوم نہ ہو سکے) کسی پتھر یا کوڑے یا ڈنڈے سے مارا جائے تو اس کی دیت وہی ہو گی جو قتل خطا کی ہے اور جس نے قصداً مارا تو اس پر قصاص ہو گا، جو کوئی قصاص اور قاتل کے درمیان حائل ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا نہ نفل۔“[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4793]
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث مبارکہ قتل عمد (کسی کا کسی کو جان بوجھ کو قتل کرنا) کا بالکل صریح حکم بیان کرتی ہے کہ اس میں قصاص واجب ہے۔ ہاں اگر مقتول کے ورثاء دیت پر راضی ہو جائیں تو یہ درست ہوگا۔ اس صورت میں قاتل سے قصاص ساقط ہو جائے گا جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ (2) جو شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود قائم کرنے میں حائل ہو اور کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرے تو وہ شخص، خواہ صدرِ مملکت ہی ہو، لعنتی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی بھی لعنت ہے، نیز ایسے شخص کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ ہے۔ مطلب یہ کہ ایسا کرنا حرام اور شرعاً ناجائز ہے۔ (3) اس حدیث میں ہنگامے اور بلوے کی صورت بیان کی گئی ہے کہ دونوں طرف ازدحام ہے۔ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ کوئی پتھر چلا رہا ہے کوئی لکڑی۔ کوئی کوڑا مار رہا ہے، کوئی خالی ہاتھ۔ ایسے بلوے میں قاتل کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی ایسی لڑائی کا مقصود کسی کو قتل کرنا نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر کوئی مارا جائے تو اسے قتل خطا قرار دیا جائے گا اور فریق ثانی دیت بھرے گا۔ البتہ اگر ایسی لڑائی میں اسلحہ استعمال ہو لیکن قاتلین کا تعین نہ ہو تو فریق ثانی سے قتل عمد کی دیت وصول کی جائے گی کیونکہ اسلحہ چلانے سے مقصود قتل کرنا ہی ہوتا ہے اور اگر قاتل کا تعین ہو جائے تو قصاص لیا جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک آدمی کا مقصد دوسرے کو قتل کرنا ہی ہے، پھر خواہ وہ تلوار استعمال کرے یا آتشیں اسلحہ یا پتھر یا لکڑی یا ہتھوڑا، ہر حال میں اس سے قصاص لیا جائے گا جیسا کہ اس حدیث میں الگ طور پر ذکر ہے۔ (4)”فرض ونفل“ بعض نے صَرْفٌ کے معنیٰ توبہ اور عَدْلٌ کے معنیٰ فدیہ ومعاوضہ کیے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4793
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4794
´پتھر یا کوڑے سے قتل کئے جانے والے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی ہنگامے یا بلوے میں کسی پتھر، کوڑے یا ڈنڈے سے مارا جائے تو اس کی دیت وہی ہے جو قتل خطا کی ہے، اور جس نے جان بوجھ کر مارا تو اس میں قصاص ہے اور جو کوئی اس کے اور اس کے (قصاص اور قاتل) کے درمیان حائل ہو گا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا نہ فرض قبول ہو گا نہ کوئی نفل۔“[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4794]
اردو حاشہ: مرفوعاً سے مراد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے، کبھی اختصار کی خاطر ایسے کہہ دیا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4794
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2635
´قصاص یا دیت لینے میں جو مقتول کے ورثاء کے آڑے آئے اس کے گناہ کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اندھا دھند فساد (بلوہ) میں یا تعصب کی وجہ سے پتھر، کوڑے یا ڈنڈے سے مار دیا جائے، تو قاتل پر قتل خطا کی دیت لازم ہو گی، اور اگر قصداً مارا جائے، تو اس میں قصاص ہے، جو شخص قصاص یا دیت میں حائل ہو تو اس پر لعنت اللہ کی ہے، اس کے فرشتوں کی، اور سب لوگوں کی، اس کا نہ فرض قبول ہو گا نہ نفل“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2635]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اندھا دھند لڑائی کا مطلب یہ ہے کہ دو پارٹیاں آپس میں لڑ پڑیں، اس میں کسی کو پتھر وغیرہ لگا جس سے وہ مرگیا۔ اس میں یہ معلوم کرنا دشوار ہے کہ فلاں شخص کی ضرب سے مراہے، لہٰذا کسی کو متعین کرکے قصاص تو نہیں لیا جا سکتا لیکن اس کا خون بےکار بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے دیت ضروری ہے۔
(2) قصاص اللہ کا قانون ہے۔ اللہ کے قانون کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بننا کفریہ حرکت ہے، لہٰذا لعنت کا باعث ہے۔ ایسے شخص کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2635