سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے (سلیمان) کو لکھا: حمد و صلاۃ کے بعد معلوم ہونا چاہیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھروں اور محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں درست اور پاک و صاف رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، مسند احمد (5/17)، (تحفة الأشراف: 4616) (صحیح)»
Samurah reported that he wrote (a letter) to his sons: After (praising Allah and blessing the Prophet) that: The Messenger of Allah ﷺ used to command us to build mosques in our localities and keep them well and clean.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 456
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خبيب بن سليمان: مجھول (تقريب: 1700) وجعفر بن سعد: ضعيف،ضعفه الجمھور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 29
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 456
456۔ اردو حاشیہ: ➊ ان احادیث میں لفظ «دُور» سے مراد ”محلے“ ہیں جو کہ «دار» کی جمع ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں آیا ہے: «سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ»[الأعراف: 145]”میں عنقریب تمہیں فاسقوں کے گھر (منازل) دکھاؤں گا۔“ اور جس جگہ میں قبیلے کے کئی گھر آباد اور جمع ہوں اسے «دار» کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ اس حکم کے بعد «مابقيت دار إلا بني فيها مسجد»”ہر ہر محلے میں مسجدیں بن گئیں۔“ اور ظاہر ہے کہ جماعت کی فضیلت حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی لفظ «دُور» کے دوسرے معنی ”ہر ہر گھر“ بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی ہر گھر میں نماز کے لیے جگہ خاص ہونی چاہیے اور اسے پاک صاف رکھاجائے تاکہ گھر کے افراد وہاں نماز پڑھ سکیں، مگر محدثین کے ہاں پہلے معنی ہی راجح ہیں۔ ➋ مساجد کا ادب یہ ہے کہ ان کی تعمیر غلو سے پاک، خوش منظر، وسیع اور روشن ہو اور اسے ظاہر اور باطن ہر لحاظ سے پاک صاف رکھا جائے۔ بخلاف دیگر مذاہب کے معاہد کے کہ ان میں یہ اہتمام کم ہی ہوتا ہے، مثلا ہندؤں کے مندر وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 456