(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، ومسدد المعنى، قالا: حدثنا حماد، عن خالد، عن القاسم بن ربيعة، عن عقبة بن اوس، عن عبد الله بن عمرو،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب يوم الفتح بمكة فكبر ثلاثا، ثم قال: لا إله إلا الله وحده صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده، إلى هاهنا حفظته، عن مسدد، ثم اتفقا، الا إن كل ماثرة كانت في الجاهلية تذكر وتدعى من دم او مال تحت قدمي، إلا ما كان من سقاية الحاج وسدانة البيت، ثم قال: الا إن دية الخطإ شبه العمد ما كان بالسوط والعصا مائة من الإبل منها اربعون في بطون اولادها"، وحديث مسدد اتم. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمَ الْفَتْحِ بِمَكَّةَ فَكَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، إِلَى هَاهُنَا حَفِظْتُهُ، عَنْ مُسَدَّدٍ، ثُمَّ اتَّفَقَا، أَلَا إِنَّ كُلَّ مَأْثُرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تُذْكَرُ وَتُدْعَى مِنْ دَمٍ أَوْ مَالٍ تَحْتَ قَدَمَيَّ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ سِقَايَةِ الْحَاجِّ وَسِدَانَةِ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِ أَوْلَادِهَا"، وَحَدِيثُ مُسَدَّدٍ أَتَمُّ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسدد کی روایت کے مطابق) فتح مکہ کے دن مکہ میں خطبہ دیا، آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا، پھر فرمایا: «لا إله إلا الله وحده صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده»”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تنہا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا لشکروں کو شکست دی“(یہاں تک کہ حدیث مجھ سے صرف مسدد نے بیان کی ہے صرف انہیں کے واسطہ سے میں نے اسے یاد کیا ہے اور اس کے بعد سے اخیر حدیث تک سلیمان اور مسدد دونوں نے مجھ سے بیان کیا ہے آگے یوں ہے) سنو! وہ تمام فضیلتیں جو جاہلیت میں بیان کی جاتی تھیں اور خون یا مال کے جتنے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے پاؤں تلے ہیں (یعنی لغو اور باطل ہیں) سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی خدمت کے (یہ اب بھی ان کے ہی سپرد رہے گی جن کے سپر د پہلے تھی“ پھر فرمایا: ”سنو! قتل خطا یعنی قتل شبہ عمد کوڑے یا لاٹھی سے ہونے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں“(اور مسدد والی روایت زیادہ کامل ہے)۔
Narrated Abdullah ibn Amr: (Musaddad's version has): The Messenger of Allah ﷺ made a speech on the day of the conquest of Makkah, and said: Allah is Most Great, three times. He then said: There is no god but Allah alone: He fulfilled His promise, helped His servant, and alone defeated the companies. (The narrator said: ) I have remembered from Musaddad up to this. Then the agreed version has: Take note! All the merits mentioned in pre-Islamic times, and the claim made for blood or property are under my feet, except the supply of water to the pilgrims and the custody of the Kabah. He then said: The blood-money for unintentional murder which appears intentional, such as is done with a whip and a stick, is one hundred camels, forty of which are pregnant. Musaddad's version is more accurate.
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4531
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3490) أخرجه ابن ماجه (2627) ورواه النسائي (4797)
لا إله إلا الله وحده صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده كل مأثرة كانت في الجاهلية تذكر وتدعى من دم أو مال تحت قدمي إلا ما كان من سقاية الحاج وسدانة البيت دية الخطإ شبه العمد ما كان بالسوط والعصا ما
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4547
فوائد ومسائل: قتل خطا شبہ عمد کی دیت کا یہ باب اس مقام پر بعض نسخوں کے اعتبار سے ہے، ورنہ اکثر نسخوں میں یہ باب فیمن تطبب۔ ۔ ۔ کے بعد ہے، جیسا کہ اس نسخے میں بھی دوبارہ یہ باب وہاں موجو د ہے، قتل کی تین قسمیں ہیں۔ قتل عمد (جو قصدجان بوجھ کر ہو) قتل خطا (جو بلا قصد وارادہ ہو جائے) قتل خطا شبہ العمد یعنی مارنے والے نے قصد کوئی ایسی چیز ماری جس سے کوئی مرتا نہیں ہے۔ نہ اس کی نیت ہی اسے قتل کرنے کی تھی۔ مثلا لاٹھی، کوڑا یا پتھر مارا جس سے آدمی عموما مرتا نہیں ہے، مگر اتفاقا مضروب مر گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4547