(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى البلخي، حدثنا ابو اسامة، قال: مجالد اخبرنا، عن عامر، عن جابر بن عبد الله، قال:" جاءت اليهود برجل وامراة منهم زنيا، فقال: ائتوني باعلم رجلين منكم فاتوه بابني صوريا، فنشدهما: كيف تجدان امر هذين في التوراة؟ قالا: نجد في التوراة إذا شهد اربعة انهم راوا ذكره في فرجها مثل الميل في المكحلة رجما، قال: فما يمنعكما ان ترجموهما، قالا: ذهب سلطاننا فكرهنا القتل، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالشهود، فجاءوا باربعة فشهدوا انهم راوا ذكره في فرجها مثل الميل في المكحلة، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم برجمهما". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: مُجَالِدٌ أَخْبَرَنَا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" جَاءَتْ الْيَهُودُ بِرَجُلٍ وَامْرَأَةٍ مِنْهُمْ زَنَيَا، فَقَالَ: ائْتُونِي بِأَعْلَمِ رَجُلَيْنِ مِنْكُمْ فَأَتَوْهُ بِابْنَيْ صُورِيَا، فَنَشَدَهُمَا: كَيْفَ تَجِدَانِ أَمْرَ هَذَيْنِ فِي التَّوْرَاةِ؟ قَالَا: نَجِدُ فِي التَّوْرَاةِ إِذَا شَهِدَ أَرْبَعَةٌ أَنَّهُمْ رَأَوْا ذَكَرَهُ فِي فَرْجِهَا مِثْلَ الْمِيلِ فِي الْمُكْحُلَةِ رُجِمَا، قَالَ: فَمَا يَمْنَعُكُمَا أَنْ تَرْجُمُوهُمَا، قَالَا: ذَهَبَ سُلْطَانُنَا فَكَرِهْنَا الْقَتْلَ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّهُودِ، فَجَاءُوا بِأَرْبَعَةٍ فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ رَأَوْا ذَكَرَهُ فِي فَرْجِهَا مِثْلَ الْمِيلِ فِي الْمُكْحُلَةِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجْمِهِمَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہود اپنے میں سے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے ان دونوں نے زنا کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو ایسے شخصوں کو جو تمہارے سب سے بڑے عالم ہوں لے کر میرے پاس آؤ“ تو وہ لوگ صوریا کے دونوں لڑکوں کو لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا واسطہ دے کر ان دونوں سے پوچھا: ”تم تورات میں ان دونوں کا حکم کیا پاتے ہو؟“ ان دونوں نے کہا: ہم تورات میں یہی پاتے ہیں کہ جب چار گواہ گواہی دیدیں کہ انہوں نے مرد کے ذکر کو عورت کے فرج میں ایسے ہی دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں تو وہ رجم کر دئیے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو پھر انہیں رجم کرنے سے کون سی چیز روک رہی ہے؟“ انہوں نے کہا: ہماری سلطنت تو رہی نہیں اس لیے اب ہمیں قتل اچھا نہیں لگتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہوں کو بلایا، وہ چار گواہ لے کر آئے، انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے مرد کے ذکر کو عورت کی فرج میں ایسے ہی دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو رجم کرنے کا حکم دے دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/ الأحکام (2328)، (تحفة الأشراف: 2346)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/387)، صحیح مسلم/الحدود 6 (2374) (صحیح)»
Jabir bin Abdullah said: The Jews brought a man and a woman of them who had committed fornication. He said: Bring me two learned men or yours. So they brought the two sons of Suriya. He adjured them and said: How do you think about the matter if these two persons bear witness to the effect that they have seen his sexual organ in her female organ (penetrated) like a collyrium stick when enclosed in its case, they will be stoned to death. He asked: What is there which prevents you from stoning them: They replied: Our rule has gone, so we disapproved of killing. The Messenger of Allah ﷺ then called four witnesses. They brought four witnesses. Who testified that they had seen his sexual organ (penetrated) in her female organ like a collyrium stick when enclosed in its case. The Prophet ﷺ then gave orders for stoning them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4437
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2374) مجالد ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 157
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4455
´دو یہودیوں کے رجم کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ایک مرد اور ایک عورت کو جنہوں نے زنا کیا تھا رجم کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4455]
فوائد ومسائل: یہودی مرد عورت کے بارے میں جنہوں نےزنا کا ارتکاب کیا تھا، مذکورہ روایات میں بعض میں تویہ بیان ہوا ہے کہ ان کی سزا کی بابت انہوں نے آکر پہلے رسول اللہﷺ کے پاس ہوا تو رسول اللہ نے ان سے زنا کاری کی سزا پوچھی۔ اسکی توجیہہ میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ یا تو الگ الگ دو واقعہ ہیں یا پہلے انہوں نے اپنے طور پر فوری سزا دے لی اور پھر بعد میں سوال جواب ہوئے جب ان کا گزر رسول اللہﷺ کے پاس ہوا۔ واللہ اعلم (عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4455
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2328
´اہل کتاب کو کن الفاظ میں قسم دلائی جائے گی اس کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یہودیوں سے فرمایا: ”میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دلاتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2328]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو بعض محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ یہود ونصاریٰ کے مذہب میں بھی جھوٹی قسم کھانا حرام ہے اس لیے ضرورت کےوقت ان سے قسم لی جا سکتی ہے۔
(2) غیر مسلموں سے بھی اللہ ہی کی قسم لی جائے۔
(3) یہود و تورات کا ادب کرتے اور اس پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے ان کے عقیدے کے مطابق قسم لی جا سکتی ہے لیکن ایسے الفاظ سے جو اسلامی عقیدے کےبھی خلاف نہ ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2328
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1331
1331- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: فدک کے رہنے والے ایک شخص نے زنا کا ارتکاب کیا، تو فدک کے رہنے والے لوگوں نے مدینہ منورہ میں رہنے والے کچھ یہودیوں کو خط لکھا کہ تم لوگ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کرو اگر وہ تمہیں کوڑے مارنے کاحکم دیں، تو تم اسے حاصل کر لینا اور اگر تمہیں سنگسار کرنے کاحکم دیں، تو تم اسے اختیار نہ کرنا ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے میں سے دو زیادہ علم رکھنے والے افراد کو میرے پاس بھجواؤ“، تو وہ لوگ ایک کانے شخص کولے کر آئے جس کا نام ”صوری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1331]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ یہودی بھی اپنے بعض مسائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حل کرواتے تھے، اور اپنا منصف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقرر کرتے تھے لیکن بعض اوقات اپنے مطلب کے ناکام فتویٰ کی کوشش کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن و حدیث کے مطابق فتویٖ دیتے تھے۔ جب بھی کسی فریق مخالف سے بات کرنی ہو تو ان کے اہل علم سے بات کرنی چاہیے، نہ کہ جاہل سے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جاہلوں سے اعراض کرنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعراف: 199) یہودی ایک ناکام سازش کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت مبارکہ میں فیصلہ لے کر آتے تھے لیکن آپ نے انھی کی کتاب سے اور انھی کے اہل علم کی زبانی اقرار کروایا اور شادی شدہ زانی کو رجم کیا گیا۔ یہاں سے ایک اہم اصول مناظرہ سمجھ میں آتا ہے کہ فریق مخالف کی کتاب سے ہی وہ بات ثابت کی جائے، پھر اس بات کا فریق مخالف کے اہل علم سے اقرار کروایا جائے، یہ سب سے مؤثر ترین مناظرہ ہوتا ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام ہمیشہ انصاف کے ساتھ ہی فیصلہ کرتے تھے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1330