(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، حدثنا يزيد بن زريع، عن محمد بن إسحاق، قال: ذكرت لعاصم بن عمر بن قتادة قصة ماعز ابن مالك، فقال لي: حدثني حسن بن محمد بن علي بن ابي طالب، قال: حدثني ذلك، من قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: فهلا تركتموه من شئتم من رجال اسلم ممن لا اتهم، قال: ولم اعرف هذا الحديث، قال: فجئت جابر بن عبد الله، فقلت: إن رجالا من اسلم يحدثون، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهم حين ذكروا له جزع ماعز من الحجارة حين اصابته: الا تركتموه، وما اعرف الحديث، قال: يا ابن اخي انا اعلم الناس بهذا الحديث كنت فيمن رجم الرجل،" إنا لما خرجنا به فرجمناه فوجد مس الحجارة، صرخ بنا: يا قوم ردوني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن قومي قتلوني وغروني من نفسي، واخبروني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غير قاتلي، فلم ننزع عنه حتى قتلناه، فلما رجعنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم واخبرناه، قال: فهلا تركتموه وجئتموني به ليستثبت رسول الله صلى الله عليه وسلم منه فاما لترك حد فلا"، قال: فعرفت وجه الحديث. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: ذَكَرْتُ لِعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قِصَّةَ مَاعِزِ ابْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ لِي: حَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ذَلِكَ، مِنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلَّا تَرَكْتُمُوهُ مَنْ شِئْتُمْ مِنْ رِجَالِ أَسْلَمَ مِمَّنْ لَا أَتَّهِمُ، قَالَ: وَلَمْ أَعْرِفْ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: فَجِئْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: إِنَّ رِجَالًا مِنْ أَسْلَمَ يُحَدِّثُونَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ حِينَ ذَكَرُوا لَهُ جَزَعَ مَاعِزٍ مِنَ الْحِجَارَةِ حِينَ أَصَابَتْهُ: أَلَّا تَرَكْتُمُوهُ، وَمَا أَعْرِفُ الْحَدِيثَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ كُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَ الرَّجُلَ،" إِنَّا لَمَّا خَرَجْنَا بِهِ فَرَجَمْنَاهُ فَوَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ، صَرَخَ بِنَا: يَا قَوْمُ رُدُّونِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ قَوْمِي قَتَلُونِي وَغَرُّونِي مِنْ نَفْسِي، وَأَخْبَرُونِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ قَاتِلِي، فَلَمْ نَنْزَعْ عَنْهُ حَتَّى قَتَلْنَاهُ، فَلَمَّا رَجَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرْنَاهُ، قَالَ: فَهَلَّا تَرَكْتُمُوهُ وَجِئْتُمُونِي بِهِ لِيَسْتَثْبِتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ فَأَمَّا لِتَرْكِ حَدٍّ فَلَا"، قَالَ: فَعَرَفْتُ وَجْهَ الْحَدِيثِ.
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں: مجھے قبیلہ اسلم کے کچھ لوگوں نے جو تمہیں محبوب ہیں اور جنہیں میں متہم نہیں قرار دیتا بتایا ہے کہ «فهلا تركتموه» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے، حسن کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث سمجھی نہ تھی، تو میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے کہا کہ قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے پتھر پڑنے سے ماعز کی گھبراہٹ کا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا“ یہ بات میرے سمجھ میں نہیں آئی، تو جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: بھتیجے! میں اس حدیث کا سب سے زیادہ جانکار ہوں، میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے انہیں رجم کیا جب ہم انہیں لے کر نکلے اور رجم کرنے لگے اور پتھر ان پر پڑنے لگا تو وہ چلائے اور کہنے لگے: لوگو! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس لے چلو، میری قوم نے مجھے مار ڈالا، ان لوگوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے، انہوں نے مجھے یہ بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مار نہیں ڈالیں گے، لیکن ہم لوگوں نے انہیں جب تک مار نہیں ڈالا چھوڑا نہیں، پھر جب ہم لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا، میرے پاس لے آتے“ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا تاکہ آپ ان سے مزید تحقیق کر لیتے، نہ اس لیے کہ آپ انہیں چھوڑ دیتے، اور حد قائم نہ کرتے، وہ کہتے ہیں: تو میں اس وقت حدیث کا مطلب سمجھ سکا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2231)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/381) (حسن)»
Narrated Jabir ibn Abdullah: Muhammad ibn Ishaq said: I mentioned the story of Maiz ibn Malik to Asim ibn Umar ibn Qatadah. He said to me: Hasan ibn Muhammad ibn Ali ibn Abu Talib said to me: Some men of the tribe of Aslam whom I do not blame and whom you like have transmitted to me the saying of the Messenger of Allah ﷺ: Why did you not leave him alone? He said: But I did not understand this tradition. So I went to Jabir ibn Abdullah and said (to him): Some men of the tribe of Aslam narrate that the Messenger of Allah ﷺ said when they mentioned to him the anxiety of Maiz when the stones hurt him: "Why did you not leave him alone?' But I do not know this tradition. He said: My cousin, I know this tradition more than the people. I was one of those who had stoned the man. When we came out with him, stoned him and he felt the effect of the stones, he cried: O people! return me to the Messenger of Allah ﷺ. My people killed me and deceived me; they told me that the Messenger of Allah ﷺ would not kill me. We did not keep away from him till we killed him. When we returned to the Messenger of Allah ﷺ we informed him of it. He said: Why did you not leave him alone and bring him to me? and he said this so that the Messenger of Allah ﷺ might ascertain it from him. But he did not say this to abandon the prescribed punishment. He said: I then understood the intent of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4406
اعترف بالزنا فأعرض عنه النبي حتى شهد على نفسه أربع مرات قال له النبي أبك جنون قال لا قال آحصنت قال نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له النبي خير
إنا لما خرجنا به فرجمناه فوجد مس الحجارة صرخ بنا يا قوم ردوني إلى رسول الله فإن قومي قتلوني وغروني من نفسي وأخبروني أن رسول الله غير قاتلي فلم ننزع عنه حتى قتلناه فلما رجعنا إلى رسول الله وأخبرناه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4420
فوائد ومسائل: احادیث رسول میں کسی ایک متن کولے کرحکم لگانے سے پیشتر اس کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور طلبہ حدیث کو اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4420
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1958
´رجم کئے ہوئے شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے (اپنا منہ) پھیر لیا، اس نے دوبارہ اعتراف کیا تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، اس نے پھر تیسری دفعہ اعتراف کیا، تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہیاں دیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تجھے جنون ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: ”کیا تو شادی شدہ ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کو رجم کر دیا گیا، جب اسے پتھر لگا تو بھاگ کھڑا ہوا، پھر وہ پکڑا گیا تو پتھروں سے مارا گیا، تو اور مر گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں اچھی بات کہی، اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1958]
1958۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ شخص حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔ ➋ ”منہ موڑ لیا“ اس میں اشارہ ہے کہ گناہ ہو جائے اور گواہ نہ ہوں تو اعتراف کے بجائے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی جائے اور توبہ کر لی جائے، توبہ بھی گناہ کو مٹا دیتی ہے، البتہ اگر وہ شخص قاضی کے سامنے زنا کا اعتراف کر لے یا اسے چار آدمی عین حالت زنا میں دیکھ لیں تو اس پر حد نافذ ہو گی۔ ➌ ”جنون تو نہیں؟“ معلوم ہوا مجنون پر حد نہیں ہے۔ ➍ ”شادی شدہ ہے؟“ شادی شدہ نہ ہو تو سزا کوڑے ہیں، رجم نہیں۔ ➎ ”تعریفی کلمات کہے“ کیونکہ اس نے سچی توبہ کرلی حتی کہ جان قربان کر دی۔ ➏ ”جنازہ نہیں پڑھا“ مگر دیگر روایات میں ہے کہ آپ نے جنازہ پڑھا۔ (صحیح البخاري، حدیث: 6820) دراصل اس وقت نہیں پڑھا تھا، دوسرے دن پڑھا تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابوقرہ کی سنن کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباري، حدیث: 6820-131/12) معلوم ہوا اس قسم کے شخص کا جنازہ پڑھا جائے گا مگر اہتمام کے ساتھ نہیں بلکہ چند لوگوں کے ساتھ پڑھ لیا جائے تاکہ مجرموں کی حوصلہ شکنی ہو اور میت جنازے سے محروم بھی نہ رہے۔ ➐ جب تک پوری طرح بات واضح نہ ہو جائے، حد قائم نہیں کی جائے گی۔ ➑ امام اپنی طرف سے کسی کو حد لگانے کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1958
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4430
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے زنا کا اقرار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا منہ پھیر لیا، پھر اس نے آ کر اعتراف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے اپنا منہ پھیر لیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے خلاف چار بار گواہیاں دیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کیا تجھے جنون ہے؟“ اس نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو شادی شدہ ہے“ اس نے کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4430]
فوائد ومسائل: حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی گئی تھی، مگر بعد میں جیسا کہ صحیح بکاری میں موجودہے دیکھیے: (صحیح البخاري، الحدود، حدیث:286)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4430
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1429
´مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو اس سے حد ساقط کرنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پاگل ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں: پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کر دیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1429]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیا گیا، اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”أَتُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟“ کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: «لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَة لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِيْنَ لَوَسعَتْهُم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئے: كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم 1435۔
2؎: اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے، پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1429
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5270
5270. سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اس نے کہا کہ اس نے بد کاری کی ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے منہ موڑ لیا تو وہ بھی اس طرف پھر گیا جدھر آپ نے اپنا چہرہ کیا تھا اور اپنی ذات کے خلاف چار مرتبہ گواہی دی کہ اس نے زنا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تم پاگل تو نہیں ہو، کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے عید گاہ میں رجم کر دیا جائے۔ جب اسے پتھر لگے تو بھاگ نکلا اسے حرہ کے پاس دھر لیا گیا، پھر اسے جان سے مارا دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5270]
حدیث حاشیہ: حضرت ماعز اسلمی صحابی مرتبہ میں اولیاءاللہ سے بھی بڑھ کر تھے۔ ان کا صبر و استقلال قابل صد تعریف ہے کہ اپنی خوشی سے زنا کی سزا قبول کی اور جان دینی گوارا کی مگر آخرت کا عذاب پسند نہ کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بھاگنے کا حال سنا تو فرمایا تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا شاید وہ توبہ کرتا اللہ اس کا گناہ معاف کر دیتا۔ امام شافعی اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ جب زنا اقرار سے ثابت ہوا ہو اور رجم کرتے وقت وہ بھاگے توفوراً اسے چھوڑ دینا چاہیئے۔ اب اگر اقرار سے رجوع کرے تو حد ساقط ہجائے گی ورنہ پھر حد لگائی جائے گی۔ سبحان اللہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا کیا کہنا ان میں ہزاروں شخص ایسے موجود تھے جنہوں نے عمر بھر کبھی زنا نہیں کیا تھا اور ایک ہمارا زمانہ ہے کہ ہزاروں میں کوئی ایک آدھ شخص ایسا نکلے گا جس نے کبھی زنا نہ کیا ہو۔ انجیل مقدس میں ہے کہ کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے ایک عورت کو لائے جس نے زنا کرایا تھا اور آپ سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا تم میں وہ اس کو سنگسار کرے جس نے خود زنا نہ کیا ہو۔ یہ سنتے ہی سب آدمی جو اس کو لائے تھے شرمندہ ہو کر چل دیئے، وہ عورت مسکین بیٹھی رہی۔ آخر اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا اب میرے باب میں کیا حکم ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا نیک بخت تو بھی جا توبہ کر اب ایسا نہ کیجؤ۔ اللہ تعالیٰ نے تیرا قصور معاف کر دیا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5270
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6814
6814. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے اور اپنے آپ پر چار شہادتیں پیش کیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق رجم کا حکم دیا چنانچہ سے سنگسار کیا گیا جبکہ وہ شادی شدہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6814]
حدیث حاشیہ: یہ ان کے کامل ایمان کی دلیل ہے کہ خود حد پانے کے لیے تیار ہوگئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6814
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6814
6814. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے اور اپنے آپ پر چار شہادتیں پیش کیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق رجم کا حکم دیا چنانچہ سے سنگسار کیا گیا جبکہ وہ شادی شدہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6814]
حدیث حاشیہ: (1) جو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس کا نام ماعز بن مالک تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنے جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تونے بوسہ لیا ہوگا یا بغل میں لیا ہوگا یا سا سے نظر بازی کی ہوگی۔ “ اس نے کہا: نہیں، بلکہ میں نے جماع کیا ہے۔ جب اس صراحت کے ساتھ اس نے جرم کا اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6824)(2) آپ نے اسے شک کا فائدہ دینا چاہا کہ شاید نظر بازی اور بوس وکنار کو اس نے زنا سمجھ لیا ہو جیسا کہ بعض احادیث میں ان چیزوں کو زنا شمار کیا گیا ہے، بہرحال وہ شادی شدہ تھا اور زنا کے بعد اسے سنگسار کیا گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے شادی شدہ کے لیے رجم ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6814
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6820
6820. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور زنا کا اقرار کیا۔ نبی ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا حتیٰ کہ اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے۔“ اس نے کہا: نہیں۔ ”آپ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اسے عیدہ گاہ میں سنگسار کر دیا گیا۔ جب اس پر پتھر پڑے تو بھاگ نکلا لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق کلمہ خیر کیا اور اس کا جنازہ بھی پڑھا۔ یونس اور ابن جریج نے امام زہری سے نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) سے پوچھا گیا کہ نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ ثابت ہیں یا نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: معمر نے انہیں بیان کیا ہے پھر ان سے پوچھا گیا: معمر کے علاوہ کسی دوسرے راوی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6820]
حدیث حاشیہ: (1) مدینہ طیبہ کے قرب وجوار میں بقیع الغرقد کے پاس ایک مخصوص میدانی علاقہ تھا جہاں عیدین اور جنازے پڑھے جاتے تھے۔ عیدین کے موقع پر مخصوص ایام والی عورتیں بھی ایک طرف جمع ہوتی تھیں۔ تقدس واحترام میں یہ میدان مسجد کے حکم میں نہ تھا۔ بعض اوقات زنا کاروں کو حد لگانے کے لیے اسی میدانی علاقے کا انتخاب کیا جاتا تھا کیونکہ سنگسار کرنے کی سزا مسجد میں نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ اس سے مسجد خون یا پیشاب کی وجہ سے گندی ہوسکتی ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہی ہے کہ عید گاہ اور جنازہ گاہ کا حکم مسجد جیسا نہیں ہے کیونکہ اگر ان کا حکم مسجد جیسا ہوتا تو ان کے متعلق بھی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جاتا جن سے مسجد کو دور رکھا جاتا ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 158/12)(3) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے معمر بن راشد کی روایت یقین ووثوق کے ساتھ بیان کی ہے کیونکہ حضرت معمر بہت بڑے فقیہ، متقی اور قابل اعتماد ہیں۔ ایسے شخص کا اضافہ قابل قبول ہوتا ہے۔ بہرحال جسے رجم کیا جائے اس کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل پہلے کہیں بیان ہو چکی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6820