(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد، حدثنا عمر بن عبد الواحد، عن الاوزاعي، قال: حدثني ابو عمار، حدثني ابو امامة،" ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إني اصبت حدا فاقمه علي، قال: توضات حين اقبلت، قال: نعم، قال: هل صليت معنا حين صلينا، قال: نعم، قال: اذهب فإن الله تعالى قد عفا عنك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ،" أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ: تَوَضَّأْتَ حِينَ أَقْبَلْتَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ صَلَّيْتَ مَعَنَا حِينَ صَلَّيْنَا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ عَفَا عَنْكَ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حد کا مرتکب ہو گیا ہوں تو آپ مجھ پر حد جاری کر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جس وقت تم آئے تو وضو کیا؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس وقت ہم نے نماز پڑھی تم کیا تو نے بھی نماز پڑھی؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/التوبة 7 (2765)، (تحفة الأشراف: 4878)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/251، 262، 265) (صحیح)»
Abu Umamah said: A man came to the prophet ﷺ and said: Messenger of Allah! I have committed a crime which involves prescribed punishment so inflict it on me. He said: Have you not performed ablution when you came? He said: Yes, He said: Have you not prayed with us when we prayed ? He said: Yes. He then said: Go off, for Allah, the Exalted, forgave you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4368
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4381
فوائد ومسائل: 1) جرم کی صراحت کے بغیر کسی حد کا اقرار کرنے سے کوئی حدلاگو نہیں ہوسکتی۔
2) جب کسی کے دل میں ایمان جاگزیں ہوجاتا ہے اور اسے اپنی آخرت کی فکر ہوتی ہے تو وہ ہر طرح کی کوشش کرتا ہے کہ اس دنیا سے پاک صاف ہوکراللہ کے حضور پیش ہو۔
3) وضو نماز باجماعت اور ہرطرح کے اعمال صالحہ انسان کی چھوٹی موٹی تفصیرات کا کفارہ بنتے رہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4381
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7007
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فر تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اس دوران اچانک ایک آدمی آیا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں قابل حد گناہ کا مرتکب ہوا ہوں، لہٰذا آپ مجھ پر حد قائم فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دینے سے خاموشی اختیار کی، اس نے اپنی بات کا پھر اعادہ کیا اور کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7007]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: روایات سے مجموعی طور پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سے حد سے مراد گناہ ہی ہے، جس کو اس نے اپنی ایمانی پختگی کی وجہ سے بڑا خیال کیا اور آپ نے فرمایا، "وضو اور نماز میں، ایک مسلمان جو اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہے، وضو کے بعد اللهم اغفرلی کہتا ہے تو یہی دعا اس کے لیے بخشش کا باعث بن جاتی ہے، کیونکہ یہ دعائیں اگر شعور و احساس کے ساتھ، معنی پر نظر رکھتے ہوئے پڑھی جائیں تو یہ توبہ پر مشتمل ہیں۔